Monday, 25 April 2016

suno logo

0 comments
سُنو لوگو!
اکیلا میں نہیں زخمی 
مرے جیسے ہزاروں ہیں 
جو اپنے ان گنت قاتل دکھوں کو اپنی اپنی پیٹھ پر لادے 
مسلسل ٹھوکریں قدموں میں باندھے اور  نابینا شکستوں ، گُنگ چیخوں  سے بھری کچھ فائیلیں  دل سے لگائے،
بے تحاشا بے مرؤت کُرسیوں کی جھڑکیا ں سہتے ،
 فقط خود ساختہ  جھوٹے دلاسوں کے سہاروں سے لٹکتے پھررہے ہیں
اور اُن میں  میَں بھی صبح سے شام تک  چھینا گیا حق  مانگنے کے جرم میں  
جیسے پرائی موت مرتا ہوں 
پرائی موت مرتا ہوں میں روزانہ 
مرا مقتل  یہی تھانے ،  دفاتر،  ایڈمنسٹریشن ،  عدالت ،
 میڈیا  ہے اور شوکت خانموں جیسے،  
درندوں سے بھرے  بے رحم جنگل ہیں 
جہاں وحشی ڈریکولے،  اکاوئٹنٹ،  افسر،  ڈاکٹر،  منصف یا ایس ایچ او یا ڈی جی،
 سب مری آنکھوں مرے کپڑوں ، مرے چہرے سے میرے درد، بیماری ، ضرورت اور حیثیت کا اندازہ لگاتے ہیں ۔ 
اور اس کے بعد میری جیب میں کچھ بچ گئے سکوں کا  آوازہ لگاتے ہیں ۔
بڑی مشکل سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں میری موت سے پہلے کے لمحوں کا 
سُنو لوگو!  
اکیلا میں نہیں زخمی ،
 مرے جیسے ہزاروں ہیں 
جنہیں  اپنے کفن اُن سے بچانے ہیں  
جو  قبروں پر بھی قابض ہو کے پہلے تو کوئی مسجد بناتے ہیں 
پھر اس کے بعد  ڈی ایچ اے  یا  شاپنگ مال یا کوئی بہت مہنگا پلازہ یا محل تعمیر کرتے ہیں
انہیں پہچان لو ،  ــــــ لوگو  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
 جو بے توقیر کر کر کے ہمیں تسخیر کرتے ہیں۔

فرحت عباس شاہ


Monday, 11 April 2016

yeh dil malool bhi kam hai udaas bhi kam hai

7 comments
یہ دل ملول بھی کم ہے اداس بھی کم ہے
کئی دنوں سے کوئی آس پاس بھی کم ہے

کچھ ان دنوں ترا غم بھی برس نہیں پایا
کچھ ان دنوں مرے صحرا کی پیاس بھی کم ہے

ترے بغیر کسی باغ پر بہار نہیں
گلوں کا رنگ بھی پھیکا ہے باس بھی کم ہے

جو اب کی بار جدائی طویل ہے تو کیا
ہمیں تو ویسے ترا ساتھ راس بھی کم ہے

ہمیں بھی یونہی گذرنا پسند ہے اور پھر
تمھارا شہر مسافر شناس بھی کم ہے

فرحت عباس شاہ
(جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)