کتاب: محبت چپ نہیں رہتی
شاعر: فرحت عباس شاہ
کمپوزر: زین شکیل
شاعر: فرحت عباس شاہ
کمپوزر: زین شکیل
**********************
وہ بولی دل کو کوئی بے یقینی ہے محبت میں
میں بولا، ٹھیک ہے پر عشق تو ایمان ہوتا ہے
وہ بولی آرزوئیں دل کے اندر بین کرتی ہیں
میں بولا، ٹھیک ہے مجھ کو سنائی دیتے رہتے ہیں
وہ بولی ہم تو جیسے اک مسلسل دکھ کے قیدی ہیں
میں بولا، ٹھیک ہے یہ زندگی دُکھ کا تسلسل ہے
وہ بولی کوئی شب تو خواب میں بھی خواب آتے ہیں
میں بولا، ٹھیک ہے کچھ حسرتیں ایسے بھی کرتی ہیں
وہ بولی، بارشوں میں اور زیادہ جاں سلگتی ہے
میں بولا، ٹھیک ہے یہ آگ پانی کے مسائل ہیں
وہ بولی، رات کیوں مشکل سے کٹتی ہے جدائی میں
میں بولا، وقت تو کیفیتوں کا نام ہوتا ہے
وہ بولی، چاہتوں میں درد کے رہنے کی خواہش کیوں؟
میں بولا، درد کے مارے ہوؤں کو چین ملتا ہے
وہ بولی، روح کی آسودگی کو کیا ضروری ہے
میں بولا، روح کو آلودگی اچھی نہیں لگتی
وہ بولی، چاند کی اور چاندنی کی کیا کہانی ہے
میں بولا، آدم و حوا کی چاہت کی نشانی ہے
وہ بولی، بے سروپا خواہشیں بیمار رکھتی ہیں
میں بولا، آدمی اندوہ کے باطن سے نکلا ہے
وہ بولی، دور رہ کر درد بڑھ جاتا ہے سینے میں
میں بولا قربتیں بھی ہجر کے حدشے بڑھاتی ہیں
وہ بولی، شام ہوتے ہی اداسی پھیل جاتی ہے
میں بولا، رات بھی تو آنسوؤں سے عشق کرتی ہے
وہ بولی، زندگی میں تُو نہیں تو زندگی کب ہے
میں بولا ہر طرف اک لا اُبالی موت حاوی ہے
وہ بولی، عشق کا اپنا علیحدہ رنگ ہوتا ہے
میں بولا، رنگ کا اپنا علیحدہ عشق ہوتا ہے
وہ بولی، دل میں کوئی بے وجہ سا خوف رہتا ہے
میں بولا، عشق تو بے باک لوگوں کا ہی شیوہ ہے
محبت ایک پل بھی سکھ نہیں دیتی، کہا اُس نے
کہا میں نے، محبت کے علاوہ کون سا سکھ ہے
محبت شہر بھر میں گونج جاتی ہے کہا اُس نے
کہا میں نے، محبت کے چھپا رہنے کی خواہش کیا
محبت چپ نہیں رہتی کسی پل بھی، کہا اُس نے
کہا میں نے، محبت بن تو کائنات گونگی ہے
محبت ذہن کا اک خاص عالم ہے، کہا اُس نے
کہا میں نے، محبت روح کی دہلیز ہوتی ہے
محبت بے سبب تڑپائے رکھتی ہے، کہا اُس نے
کہا میں نے، کہ یہ اسباب کیا شے ہیں محبت میں
وہ کہتی ہے، ستارے آنسوؤں میں کیوں چمکتے ہیں؟
میں کہتا ہوں، محبت روشنی میں رنگ بھرتی ہے
وہ کہتی ہے، ہوا کے ہاتھ میں کیا کیا نہیں آتا؟
میں کہتا ہوں، جو دہلیزوں کے اندر دفن ہوتا ہے
وہ کہتی ہے، زمانے کو دلوں سے رنج کیوں کر ہے؟
میں کہتا ہوں، کہ یہ آزار تو صدیوں کی قسمت ہے
وہ کہتی ہے، تمہارے بعد کیوں بارش نہیں ہوتی
میں کہتا ہوں، مری جاں ہجر صحراؤں میں رہتا ہے
وہ کہتی ہے، کہ خوشیوں میں بھی تم تو رونے لگتے ہو
میں کہتا ہوں، مری آنکھوں کو ساون اچھا لگتا ہے
وہ بولی، تم بھی فرحت زندگی سے روٹھ جاؤ گے
میں بولا، ہاں، یا شاید موت مجھ سے مان جائے گی
وہ بولی، تم خوشی کے گیت کو مایوس کرتے ہو
میں بولا، کیا کروں ان مختصر گیتوں کے موسم کا
وہ بولی، تم تو فرحت خود ہی خود سے ہار جاتے ہو
میں بولا، کیا کروں کمزور ہوں اور بے سہارا ہوں
وہ بولی، کیا یہ سب کچھ اتفاقاً ہے تمہارا غم
میں بولا، یہ بھی ممکن ہے یہ سب کچھ احتراماً ہو
محبت میں غموں کی اس قدر یلغار کیوں،۔۔۔بولی!
میں بولا، تم کسی دن یہ تو اپنے آپ سے پوچھو
وہ کہتی ہے، سُنو فرحت! تمہارا خواب کیوں ٹوٹا؟
میں کہتا ہوں، سرابی! دل میں کوئی کھینچ پڑتی تھی
تمہاری شاعری میں زندگی کی سسکیاں کیوں ہیں؟
میں بولا، آنسوؤں کی ابتدائی شکل جو ٹھہری
وہ کہتی ہے، کہ فرحت شاہ! میں کچھ مضطرب سی ہوں
میں کہتا ہوں، سرابی! تم بھی میری روح جیسی ہو
وہ کہتی ہے، تمہیں کیوں خوف آتا ہے ہواؤں سے
میں کہتا ہوں، سرابی! دیپ تو ایسے ہی ہوتے ہیں
وہ کہتی ہے، چلو فرحت!ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
میں خاموشی سے اُس کے ساتھ چل دیتا ہوں بجھنے کو
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کہاں غائب ہو صدیوں سے
میں کہتا ہوں، ہزاروں وسوسوں کے درمیاں گم ہوں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات کی بے چینیاں کیا ہیں؟
میں کہتا ہوں، وہی جو دوریوں کے دل میں ہوتی ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خوف کا دورانیہ کیا ہے؟
میں کہتا ہوں، جو دل اور غم کا ہوتا ہے مصیبت میں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادلوں کی عمر کتنی ہے؟
میں کہتا ہوں، تمازت کے مطابق پانیوں کے وقت جتنی ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اتنی بے زباں کیوں ہے؟
میں کہتا ہوں، زباں تو درد کی شدت کی ہوتی ہے
وہ کہتی ہے، یہ خاموشی بھی کچھ تو سوچتی ہو گی
میں کہتا ہوں، وہی جو گفتگو کی بھیڑ میں کھو جائے
وہ کہتی ہے کہ فرحت، کچھ دنوں سے بولتے کم ہو
میں کہتا ہوں، کئی دُکھ بولنے سے روک دیتے ہیں
وہ کہتی ہے، مجھے یہ سوچ کر بتلا میں کیسی ہوں
میں کہتا ہوں سرابی! سوچنے میں وقت لگتا ہے
میں کہتا ہوں، تمہیں دریا کنارے کیسے لگتے ہیں
وہ کہتی ہے، تمہیں بچھڑے سہارے کیسے لگتے ہیں
میں کہتا ہوں، مجھے تم ہنستی گاتی اچھی لگتی ہو
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، درد سے ڈرنے لگے ہو کیا؟
وہ بولی، رات سے کیا بات کرتے ہو اکیلے میں؟
میں بولا، درد کی، کچھ کچھ محبت کی، جدائی کی
وہ بولی، چاند کیا آتا ہے تم سے چونچلیں کرنے؟
میں بولا، ہاں کبھی سپنوں کے آنگن میں اُترتا ہے
وہ بولی، کون اکثر یاد آتا ہے اُداسی میں
میں بولا، کچھ پرانے راستے، بچپن، اور اک لڑکی
وہ بولی، درد کی جزیات میں پڑنے سے کیا بہتر
میں بولا، درد کو خوش خوش سہیں اور کوچ کر جائیں
وہ بولی، زندگی تو دائروں کے پھیلنے سے ہے
میں بولا، موت بھی اک دائرہ ہے دور تک پھیلا
وہ بولی، روح کے اندر کہیں پر آگ جلتی ہے
میں بولا، ہاں دھواں میں نے بھی دیکھا ہے نگاہوں میں
وہ بولی، اک دہکتا شور شریانوں میں بہتا ہے
میں بولا، ہاں بدن پر آبلے میں نے بھی دیکھے ہیں
وہ بولی، سانس پر بھی درد کے کوڑے برستے ہیں
میں بولا، ہاں لہو پر نیل تو میں نے بھی دیکھے ہیں
وہ بولی، ذات کی تہہ میں نہ جانے کیا نہاں ہو گا
میں بولا، جسم پر ابھری وریدوں سے بھی ظاہر ہے
وہ بولی، دق زدہ جیون چھپاتی پھر رہی ہوں میں
میں بولا، ناخنوں کی زردیوں نے کر دیا عریاں
وہ کہتی ہے، تری جیبوں میں اتنے خواب کیونکر ہیں؟
میں کہتا ہوں، کہ دنیا میں مجھے زندہ بھی رہنا ہے
وہ کہتی ہے، ترے کالر پہ مٹی کا نشاں کیسے؟
میں کہتا ہوں، کہ مجبوری علامت چھوڑ جاتی ہے
وہ کہتی ہے، تری آواز میں معصومیت سی ہے
میں کہتا ہوں، کہ یہ مظلومیت کے بعد آتی ہے
وہ کہتی ہے، ترے چہرے پہ کربِ بے کراں کیسا؟
میں بولا، دل نے چہرے پر ذرا سا رنگ چھوڑا ہے
وہ کہتی ہے، تیرے ہاتھوں پہ زخموں کے مناظر کیوں؟
میں کہتا ہوں، کہ کچھ زیور بڑے انمول ہوتے ہیں
وہ بولی، عمر بیتی کوئی بھی ملنے نہیں آیا
میں بولا، عمر سے پوچھو کہ آخر عمر کیوں بیتی
وہ بولی، حُسن ڈھلنے کے لیے ہوتا ہے، لگتا ہے
میں بولا، حُسن ہو، یا بخت ہو، یا چاند سورج ہو
وہ بولی، اب تو زلفوں میں بھی چاندی سی سرک آئی
میں بولا، روح تک میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہوں گی
وہ بولی، ہاتھ دیکھو بے ارادہ ہی لرزتے ہیں
میں بولا، ہاتھ دکھلاؤ تو پھر دیکھو بھی ہمت سے
وہ بولی، زندگی کاآخری کردار حیرت ہے
میں بولا، موت سے پہلے کوئی گھر بار حیرت ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادلوں کو کب بلاؤ گے؟
میں کہتا ہوں، تمہیں جب دھوپ کا موسم ستائے گا
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، پنچھیوں سے آشنائی ہے
میں کہتا ہوں کہ اشکوں کی قطاروں سے بھی واقف ہوں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، شہر کی بنیاد میں کیا ہے
میں کہتا ہوں، کسی جنگل کا قتلِ عام ہے شاید
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم سمندر میں کبھی اُترے
میں بولا، اک سمندر، دوسرے میں کس لیے اُترے
وہ کہتی ہے، مجھے مایوسیاں رستہ نہیں دیتیں
میں کہتا ہوں، کہ یہ مایوسیاں طاقت بھی ہوتی ہیں
وہ کہتی ہے، بہت تنہا ہوں میں اس پوری دنیا میں
میں کہتا ہوں، کہ یہ احساس تو ہو گا خدا کو بھی
وہ کہتی ہے کہ مجھ پر شہر کے وحشی لپکتے ہیں
میں کہتا ہوں کہ تم کردار کو سینہ سپر کر لو
وہ کہتی ہے، ہجومِ بد روِش سے خوف آتا ہے
میں کہتا ہوں، مجھے اُجڑی ہوئی گلیاں ڈراتی ہیں
وہ کہتی ہے مجھے بے حس زمانے سے شکایت ہے
میں کہتا ہوں کہ یہ شکوہ شکایت رائیگاں ہے سب
وہ بولی ، تم کہاں غائب ہوئے رہتے ہو راتوں کو
میں بولا، میں تو بس آوارہ پھرتا ہوں اداسی میں
وہ بولی، فون بھی اکثر بہت انگیج رکھتے ہو
میں بولا، بے سروپا گھنٹیوں سے خوف آتا ہے
وہ بولی، تم بہت کنجوس ہو خط بھی نہیں لکھتے
میں بولا، خط لکھوں تو شاعری ناراض ہوتی ہے
وہ بولی، تم کبھی ملنے چلے آؤ جو ممکن ہو
میں بولا، یہ تو تم نے میرے دل کی بات ہی کہہ دی
وہ بولی، آج موسم میں عجب سی خوشگواری ہے
میں بولا، ہاں یہ موسم پیار سے ملنے کا موسم ہے
وہ کہتی ہے کہ اب آوارگی سے کچھ نہیں حاصل
مجھے حیرت ہے یہ سب کچھ وہ مجھ بادل سے کہتی ہے
وہ کہتی ہے، ہوا تو بانجھ پن تقسیم کرتی ہے
میں کہتا ہوں، مگر دھرتی ہوا کے بس سے باہر ہے
وہ کہتی ہے، شبیں دھوکے میں رکھتی ہیں ہمیشہ ہی
میں کہتا ہوں، کہیں یہ تو نہیں دھوکا دنوں میں ہے
وہ کہتی ہے، مجھے تو زندگی سے ایک شکوہ ہے
ہمیشہ سائلوں کو موت کے سائے میں رکھتی ہے
وہ کہتی ہے، خدا ملتا تو اس سے بات کرتی میں
میں کہتا ہوں، مگر میں تو خموشی بانٹتا رہتا
وہ کہتی ہے کہ فرحت! بے ضرر رہنا نہیں اچھا
میں کہتا ہوں، کئی اچھائیاں بس میں نہیں ہوتیں
وہ کہتی ہے مری یادوں سے کیونکر دور رہتے ہو
میں کہتا ہوں، تری پرچھائیاں بس میں نہیں ہوتیں
وہ کہتی ہے، تمہاری کچھ دعا بھی تو کوئی ہو گی
میں کہتا ہوں، جہاں تم ہو، یہ راتیں بھی وہیں ہوتیں
عجب سے معنویت سی پلٹ آتی نظاروں میں
تمہیں ہم دیکھتے بھی اور باتیں بھی وہیں ہوتیں
ستارے دیکھنے آتے مجھے تیری محبت میں
وہ کہتی ہے، ستارے اور سپنے جھوٹ ہوتے ہیں
وہ کہتی ہے کہ اب روؤں تو آنسو چبھنے لگتے ہیں
میں کہتا ہوں، کسی شاعر سے آنکھیں مانگ سکتی ہو
وہ بولی، آس کی فصلیں کئی بیمار ہیں دل میں
میں بولا ،جس طرح ممکن ہو ساون کو بلا لاؤ
وہ بولی، میں ادھورے قیدیوں کی صف میں شامل ہوں
میں بولا، اس کا مطلب ہے کہ آزادی نہیں ممکن
وہ بولی، کچھ لکھوں تو انگلیوں سے خون رِستا ہے
میں بولا، میں تو ایسے میں بھی اپنے دل سے لکھتا ہوں
وہ بولی، درد نے اعصاب کو مُردہ بنا ڈالا
میں بولا، عشق کی بے چینیوں سے زندگی کر لو
وہ کہتی ہے، اگر سب راستے مسدود ہو جائیں
میں کہتا ہوں، تو پھر ہم آپ تک محدود ہو جائیں
وہ کہتی ہے، اگر بے چینیاں بے سُو د ہو جائیں
میں کہتا ہوں، فنا فی النار ہست و بود ہو جائیں
وہ کہتی ہے، اگر ویرانیاں رستے میں آجائیں
میں کہتا ہوں، ہزاروں گم بہت سستے میں آجائیں
وہ کہتی ہے، تمہیں تختی پہ اپنے حرف لکھ دوں تو
میں کہتا ہوں، تری باتیں مرے بستے میں آجائیں
وہ کہتی ہے، بلائیں جب بھی میرا نام لیتی ہیں
میں کہتا ہوں، تجھے میری دعائیں تھام لیتی ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، مجھ سے باتیں کیوں نہیں کرتے
میں کہتا ہوں، ابھی تو دیکھنے کی منزلوں پر ہوں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، شام کیا ویران ہوتی ہے
میں کہتا ہوں، کہ یہ تو ہجر کی پہچان ہوتی ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رتجگوں کا رنگ کیسا ہے
میں کہتا ہوں کہ جیسے جاگنے والے کی آنکھوں کا
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، ہجر کی قِسمیں بھی ہوتی ہیں
میں کہتا ہوں کہ جتنے وصل اُتنے ہجر ہوتے ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے پیار کا مطلب بتاؤ گے؟
میں کہتا ہوں کہ ہر اک بات کا مطلب نہیں ہوتا
وہ بولی، راستے میں درد کے کتنے سمندر ہیں
میں بولا، آخری جو ضبط سے باہر نکل جائے
وہ بولی، اب تو مجھ میں ضبط کا یارا نہیں باقی
میں بولا، ڈوبنے کو پھر تو تم تیار ہو جاؤ
وہ بولی، کائناتیں اس قدر سمٹی ہوئی ہیں کیوں؟
میں بولا، اس قدر وسعت کہاں سے آئی ہے تم میں؟
وہ بولی، بے سروپا زندگی سے کیا ہوا حاصل؟
میں بولا، کچھ بھی ہو،کچھ نہ بھی ہو، آخر اجل تو ہے
محبت میں سفر کتنا ضروری ہے ، وہ کہتی ہے
میں کہتا ہوں، محبت میں کہیں ٹھہرا نہیں جاتا
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، آشیانے جل گئے ہوں گے
میں کہتا ہوں، کہ شاید اتفاقاً بچ گئے ہوں گے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، آج پھر گولی چلی ہو گی
میں کہتا ہوں،کہ ہاں کچھ میتیں آئیں ہیں بستی میں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، آج بھی کچھ بم پھٹے ہوں گے
میں کہتا ہوں، کوئی کہرام تو برپا تھا سڑکوں پر
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، پھر عدالت مر گئی ہو گی
میں کہتا ہوں کہ مجرم تو بذاتِ خود ہی منصف ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادشاہِ وقت کیسا ہے
میں کہتا ہوں، بہت ہی مطمئن رہتا ہے بے چارہ
وہ کہتی ہے، ہوائیں رات سے آنگن میں بیٹھیں ہیں
میں کہتا ہوں، گھٹن اپنا اثر دکھلا کے چھوڑے گی
وہ کہتی ہے خموشی فرش پر سائے بناتی ہے
میں کہتا ہوں، اداسی وہم بنتی جارہی ہو گی
وہ کہتی ہے کہ پرچھائیں بھی اب ہمراز لگتی ہے
میں کہتا ہوں کہ تنہائی نے پاگل کر دیا ہو گا
وہ کہتی ہے مری چھت پر ہیولے رقص کرتے ہیں
میں کہتا ہوں کہ یہ تو وسوسوں نے بھیس بدلا ہے
وہ کہتی ہے، کوئی روتا ہے گلیوں کے اندھیروں میں
میں کہتا ہوں، جدائی پھر رہی ہو گی مصیبت میں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے ، کیا ہے کچھ حیران لگتے ہو
میں کہتا ہوں، کہ خود کو خواب میں ہے مطمئن دیکھا
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا ہے اتنے مطمئن کیوں ہو
میں کہتا ہوں، کہ خود کو خواب میں حیران دیکھا ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، مضطرب سے لگ رہے ہوکچھ
میں کہتا ہوں کہ دل میں عشق کا مہمان دیکھا ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا پریشانی ہے فرحت جی
میں کہتا ہوں ، کہ سارے شہر کو ویران دیکھا ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بد شگونی کا سبب کیا ہے
میں اس سے پوچھتا ہوں، زندگانی کا ادب کیا ہے
وہ بولی، آ ! تجھے میں راکھ کی تاثیر بتلاؤں
میں بولا، راکھ کو کیا راکھ کے بارے بتاؤ گی
وہ بولی، آ تجھے میں دشت کے معنی بتاتی ہوں
میں بولا، آ تجھے میں اپنے دل میں لے کے چلتا ہوں
وہ بولی، آ تجھے میں زندگی کی فکر سمجھاؤں
میں بولا ، موت کے مارے ہوئے کو خوب سمجھاؤ
وہ بولی، آ تجھے میں ہجر کا مارا دکھاتی ہوں
میں بولا، ہاں مجھے تم لے چلو میرے ہی کمرے میں
وہ کہتی ہے، غبارِ وقت میں دھندلا گیا جیون
میں کہتا ہوں، پلٹ کر دیکھنا تکلیف دیتا ہے
وہ کہتی ہے، کہ تم مجھ کو پکارا ہی نہیں کرتے
میں بولا ، کیا کروں کوئی گوارا ہی نہیں کرتا
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا مجھے تم یاد کرتے ہو
میں کہتا ہوں کہ جان من تمہیں میں بھولتا کب ہوں
وہ کہتی ہے کہ اب تو رائیگاں لگتا ہے سارا کچھ
میں کہتا ہوں، مجھے تو رائیگانی کا بھی دھوکا ہے
وہ کہتی ہے، تمنائیں سلامت ہی نہیں اب تو
میں کہتا ہوں کہ جیون میں یہ ٹھہراؤ بھی آتا ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، شورشِ چشمِ تماشا کیا
میں کہتا ہوں کہ یہ تو شورشِ عالم کا حصہ ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بیعتِ سلطانِ غم کیونکر
میں کہتا ہوں کہ یہ آداب ہیں رسمِ محبت کے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، جبر پر صبرِ مسلسل کیوں
میں کہتا ہوں کہ جب تک جنگ کی صورت نہیں بنتی
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، عالمِ بالاکہاں پر ہے
میں کہتا ہوں، ہماری فکر کی بالائی منزل ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، سب قیام و نظم کیسے ہے
میں کہتا ہوں، کوئی تو ہے جسے سب ٹھیک رکھنا ہے
وہ کہتی ہے، میں رزقِ خاک بے معنی ہوں دنیا میں
میں کہتا ہوں، کہ یہ سارا نظامِ آدمیت ہے
وہ کہتی ہے، میں عجزِ فطرتِ کونین ہوں جاناں
میں کہتا ہوں مجھے معلوم ہے اے عظمتِ خاکی
وہ کہتی ہے، میں خوابِ نورِ باطن ہوں صحیفوں میں
میں کہتا ہوں، کسے انکار ہےاے خواہشِ یزداں
وہ کہتی ہے، میں حُسنِ نرمیِ احساس ہوں فرحت
میں کہتا ہوں کہ میں تو خود گواہِ لمسِ شبنم ہوں
وہ کہتی ہے کہ میں خوشبوئے عطرسرخیِ صبح ہوں
حواسِ خمسہِ عالم مجھے محسوس کرتے ہیں
وہ بولی، میں اسیرِشامِ ہجرت ہوں زمانوں سے
میں بولا، بے ٹھکانا پن تو صدیوں کا اثاثہ ہے
وہ بولی، میں گلِ شاخِ غمِ تنہائی ہوں فرحت
میں بولا، میں مزارِ ہجرہوں وحشت کے نرغے میں
وہ بولی، میں متاعِ غیر ہوں تیرے لیے فرحت
میں بولا، ہاں یہ صدیوں سے محبت کا وطیرہ ہے
وہ بولی، میں درِ ایوانِ حیرت ہوں زمانے میں
میں بولا، میں مسافر ہوں، میں بولا میں مسافر ہوں
وہ بولی، میں طلوعِ آفتابِ حُسن کا منظر
میں بولا، ہاں اگر میں چشمِ بینائے تمنا ہوں
وہ کہتی ہے، اندھیرے راستوں سے خوف آتا ہے
میں کہتا ہوں، ابھی تو قبر بھی آنی ہے رستے میں
وہ کہتی ہے ، زمانے کا رویہ دل میں چبھتا ہے
میں کہتا ہوں کہ اچھی بات تم مختلف تو ہو
وہ کہتی ہے کہ جانے کیوں خموشی بھی کھٹکتی ہے
میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے تمہیں کہنا ہو کچھ اس سے
وہ کہتی ہے، سمندر سا کوئی رہتا ہے آنکھوں میں
میں کہتا ہوں، کبھی میرے بھی دل میں جھانک کر دیکھو
وہ کہتی ہے، مجھے ساحل سے نفرت ہے مصیبت میں
میں کہتا ہوں، کہ یہ تو بزدلی ہے رائیگانی کی
وہ بولی، بارشوں سے مستقل جھگڑے سے کیا حاصل
میں بولا، بارشوں سے ہر تعلق تیری خاطر ہے
وہ بولی، میں بہت مجبور ہوں جیون کے چنگل میں
میں اس کے جھوٹ پر بولا، خدا کا رحم ہو تم پر
وہ بولی، عشق ہےتو عشق میں ملنا ملانا کیا
میں بولا، عشق کا اپنا نظامِ وصل ہوتا ہے
وہ بولی، دوریاں تو کچھ محبت کم نہیں کرتیں
میں بولا، ہاں مگر ملنے کی خواہش کو بڑھاتی ہیں
وہ بولی، ساتھ بندھ جانے سے بہتر ہے بچھڑ جائیں
میں اس کی بات پر دُکھ سے ہنسا اور کچھ نہیں بولا
وہ کہتی ہے، سفر میں کیوں ستارے ساتھ چلتے ہیں
میں بولا، جس طرح دریا کنارے ساتھ چلتے ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، چاند کی بستی کہاں پر ہے
میں اس کی بات پر اس عہد میں حیران ہوتا ہوں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کون سورج میں سلگتا ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، اور دل کو تھام لیتی ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، روح کی لرزش کے بارے میں
میں کہتا ہوں کہ یہ تو بے قراری رقص کرتی ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، المیہ کیا چیز ہوتی ہے
میں کہتا ہوں، محبت اور نفرت، زندگی اور موت ہے شاید
وہ بولی، ساونوں میں اب وہ پہلے رنگ کم کم ہیں
میں بولا، اب پیا بھی تو سکھی کے سنگ کم کم ہیں
وہ بولی، نین کچھ کہتے ہوئے اکثر جھجھکتے ہیں
میں بولا، دل میں بیٹھے چور کو رستہ نہیں ملتا
وہ کہتی ہے کہ جھانجھر اب تمہیں مائل نہیں کرتی
میں کہتا ہوں، تمہیں اب زندگی قائل نہیں کرتی
وہ کہتی ہےکہ پیلے پھول بھی خوشبو نہیں دیتے
میں کہتا ہوں، جدائی ٹھیک سے چبھتی نہیں دل میں
وہ کہتی ہے، محبت حادثوں کو کھینچ لاتی ہے
میں کہتا ہوں، محبت معجزوں کوشکل دیتی ہے
وہ کہتی ہے، ہوائیں پیڑ سے مانوس ہوتی ہیں
میں کہتا ہوں کہ ان کے درمیاں رشتہ پرانا ہے
وہ کہتی ہے، صدائیں پربتوں سے لوٹ آتی ہیں
میں کہتا ہوں کہ ان کو ان سے ٹکرانا نہیں آتا
وہ کہتی ہے فضائیں حسن سے آباد رہتی ہیں
میں کہتا ہوں اگر اس حسن کی تقدیس باقی ہو
وہ کہتی ہے وفائیں شہر سے بیزار کیونکر ہیں
میں کہتا ہوں کہ اتنے چُپ در و دیوار کیونکر ہیں
وہ کہتی ہے، گھٹائیں دشت کے اس پار کیونکر ہیں
میں کہتا ہوں کہ یہ تو پیاس کی اپنی کرامت ہے
وہ بولی، آسمانوں کی طرف نظریں نہیں اُٹھتیں
میں کہتا ہوں کہ شاید بوجھ پڑتا ہونگاہوں پر
وہ کہتی ہے زمیں پیروں کے نیچے سرد کیونکر ہے
میں کہتا ہوں زمیں ہم سے بہت ناراض رہتی ہے
کہا اس نے مری اطراف مجھ کو قید رکھتی ہیں
کہا میں نے کہ ان اطراف سے باہر نہیں کچھ بھی
کہا اس نے درخت اپنی جڑوں سے پیار کرتے ہیں
کہا میں نے جڑیں اک روز اس کو مار دیتی ہیں
کہا اس نے خدا اچھے برے کی بات سنتا ہے
کہا میں نے اسے آواز کی پہچان آتی ہے
وہ بولی میں چہکتے بادلوں کی گنگناہٹ ہوں
میں بولا تم مہکتے موتیا کی مسکراہٹ ہو
وہ بولی میں سہانے موسموں کے گیت جیسی ہوں
میں بولا تم حسیں دیہاتیوں کی پریت جیسی ہو
وہ بولی میں چمکتی چاندنی کے رنگ جیسی ہوں
میں بولا تم محبت کے پرانے جھنگ جیسی ہو
وہ بولی میں لہکتی وادیوں کی خوشبوؤں جیسی
میں بولا قاف کی شہزادیوں کی خوشبوؤں جیسی
وہ بولی میں سمندر پار کی جنت سے آئی ہوں
میں بولا میں تمہارے خاص استقبال کو آیا
وہ کہتی ہے کہ مجھ سے تتلیاں بھی پیار کرتی ہیں
میں کہتا ہوں انہیں تم باغ کے پھولوں سی لگتی ہو
وہ کہتی ہے مجھے جگنو بھی چھونے کے لیے آئیں
میں کہتا ہوں تمہیں وہ چاند کی مہماں سمجھتے ہیں
وہ کہتی ہے مری آواز کو گنبد ترستے ہیں
میں کہتا ہوں تمہاری بازگشتِ مہرباں چاہیں
وہ کہتی ہے میں ہنس دوں تو فضائیں رقص کر اٹھیں
میں کہتا ہوں تُو رو دے تو گھٹائیں رقص کر اٹھیں
وہ کہتی ہے پرندے پیار سے مجھ کو بلاتے ہیں
میں کہتا ہوں شجر اکثر ترے قصے سناتے ہیں
وہ بولی درد اکثر رات کو سویا نہیں کرتا
میں بولا اس طرح تو کوئی بھی رویا نہیں کرتا
وہ بولی ہم تو اک شامِ غریباں گھر میں رکھتے ہیں
میں بولا کربلا والوں سے کچھ نسبت ٹھہرتی ہے
وہ بولی دل کی ویرانی کے سائے چیخ اٹھتے ہیں
میں بولا رات کے پچھلے پہر اک جشن ہوتا ہے
وہ بولی درد سے اکثر کوئی آواز آتی ہے
میں اس سے پوچھتا ہوں کون بچھڑا ہے جوانی میں
وہ بولی ایک دیوارِ انا حائل رہی اب تک
میں بولا اب تلک نقصان بھی تو ہو چکا کافی
وہ بولی رات کے ماتھے پہ ٹیکا ہے سہاگن سا
میں بولا ہاں یہ پیشانی انوکھی ہے زمانے میں
وہ بولی ہر طرف جنگل میں اک پازیب بجتی ہے
میں بولا ہر طرف چنچل ہوا پھرتی ہے بھاگی سی
وہ بولی سردیوں میں دھوپ کی حدت کبھی دیکھی
میں بولا تم نے میرے لمس کی شدت کبھی دیکھی
وہ بولی بارشوں میں شہر دھل جاتا ہے لمحوں میں
میں بولا ہاں مگر آنکھیں بہت تھک جایا کرتی ہیں
وہ بولی گرمیوں میں پیڑ کی چھاؤں بلاتی ہے
میں بولا گرمیوں میں پیڑ بھی کیسی پناہیں ہیں
وہ بولی ذات کو تقسیم ہی کرتے رہو گے کیا
میں بولا وقت کے اپنے تقاضے دل کے اپنے ہیں
وہ بولی، پھر پلٹ آئے، چلے تو پھر پلٹ آئے
میں بولا، بند کوچے کا سفر ہے زندگی اپنی
وہ بولی، ہر سڑک جاتی ہے غم کے شہر کی جانب
میں بولا، اور اگر وہ شہر اپنے دل میں ہو تو پھر
وہ بولی، غم ہمیشہ ساتھ دیتا ہے مصیبت میں
میں بولا، اک ذرا ٹھہرو، مجھےکچھ غور سے دیکھو
وہ بولی، کیا ضروری تھا مجھے تم ساتھ ہی رکھتے
میں بولا، روح بن میں جسم کیا کرتا ،کہاں جاتا
وہ بولی، آگیا ہےریتلا موسم جدائی کا
میں بولا، میں ترا صحرا نوردِ مستقل ٹھہرا
وہ بولی، ریت اُڑتی ہے تو آنکھوں میں بھی پڑتی ہے
میں بولا، درد کی ماری ہوئی آنکھوں کو اِس سے کیا
وہ بولی ،سوچ لواس دھوپ میں کانٹے برستے ہیں
میں بولا، یہ تو اچھا ہے بدن پر پھول مہکیں گے
وہ بولی، رات زخموں پر بہت ٹیسیں بھی برسیں گی
میں بولا، زخم پرزخموں کو سہہ جانے کی عادت ہے
وہ بولی، آرزوؤں کے لہو کا ذائقہ کیا ہے
میں بولا، تلخ ہے، کڑوا ہے، میٹھا ہے، رسیلا ہے
وہ کہتی ہے کہ میں تو مانگ میں سورج سجاؤں گی
میں کہتا ہوں کہ سورج کی وضاحت ہو مگر پہلے
وہ کہتی ہے، میں اپنےدل میں اک دیوار اُٹھاؤں گی
میں کہتا ہوں کہ میں اس بات کا مطلب نہیں سمجھا
وہ کہتی ہے، کہ آنکھوں میں کوئی صحرا بساؤں گی
میں کہتا ہوں کہ بینائی جھلس جائے گی ایسے تو
وہ کہتی ہے، میں پیڑوں پر تمہارا بخت لکھوں گی
میں کہتا ہوں کہ پیڑوں سے عداوت ہے تمہیں کوئی
وہ کہتی ہے، میں پانی پر ترا چہرابناؤں گی
میں کہتا ہوں، مجھے لگتا ہے تیرا دل بھی پانی ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کسے مجرم سمجھتے ہو
میں کہتا ہوں ، اُسے جو درد کے معنی نہ سمجھا ہو
وہ مجھ سے پوچھتی ہے ، جھوٹ اور سچائیاں کیا ہیں
میں کہتا ہوں کہ نیت اور نتائج کی پزیرائی
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، سب سے پہلے کون رہتا تھا
میں کہتا ہوں کہ اندازہ یا مفروضہ ہی ممکن ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے ، کون رہ جائے گا دنیا میں
میں کہتا ہوں کہ بالکل اک نئی اور اجنبی دنیا
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، موت کے بارے بتاؤ گے
میں کہتا ہوں، خطِ تنسیخ ہے آغاز سے پہلے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، جنگلوں میں کون رہتا ہے
میں کہتا ہوں، وہی جوشہر میں رہنے سے خائف ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، آسمانوں سے پرے کیا ہے
میں کہتا ہوں، نہ ویرانے، نہ آبادی، نہ بربادی
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، وقت کو تم کیا سمجھتے ہو
میں کہتا ہوں کہ ہر احساس کےاعداد کی گنتی
وہ مجھ سے پوچھتی ہے ، کیا خدا کو مانتے ہو تم
میں کہتا ہوں، یقیناً اور اسے محسوس کرتا ہوں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، یہ مذاہب کے مسائل کیا
میں کہتا ہوں کہ دنیا کے بڑے لوگوں کی باتیں ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خواب کی تعبیر کے بارے
میں اُس سے پوچھتا ہوں ،عقل کی جاگیر کے بارے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، زندگی کے راز کے بارے
میں اُس سے پوچھتا ہوں، دھڑکنوں کے ساز کے بارے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اور دن کی مسافت کیا
میں کہتا ہوں، یہ سائے ہیں کسی قیدی مسافر کے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، ہم اگر کچھ بھی نہیں ہیں تو
میں کہتا ہوں، نہیں ہونا بھی ہوتا ہے جہانوں میں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے،عقل کیا ہے اور دل کیا ہے
میں کہتا ہوں کہ بس اک اختلافِ عملِ پیہم ہے
وہ کہتی ہے کہ دیوانوں کا کوئی کیا بھروسہ ہے
میں کہتا ہوں، بھروسے کے لئے دنیا ہی کیا کم ہے
وہ کہتی ہے، کسی کو مت بتا دینا مرے بارے
میں کہتا ہوں، مگر اک گیت کو ، اک چاندنی شب کو
وہ کہتی ہے، سُنو فرحت مجھے تم سے محبت ہے
میں کہتا ہوں، مری جاں تم تو خود میری ریاضت ہو
وہ کہتی ہے، یہ سارے لوگ کیوں باتیں بناتے ہیں
میں کہتا ہوں، مری جاں یہ محبت کا مقدر ہے
میں کہتا ہوں، محبت کائناتی گیت ہوتی ہے
وہ تھوڑا گنگنا کے آنسوؤں میں ڈوب جاتی ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، ہر طرف اک بے کلی کیوں ہے
میں کہتا ہوں، کوئی انجام آ پہنچا ہے بستی میں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے ،بے سرو سامان کب سے ہو
میں اس سے پوچھتا ہوں، اس قدر نادان کب سے ہو
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کون لاوارث ہے مقتل میں
میں کہتا ہوں وہی جو قتل کرنے کے لیے آئے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، شہر کی حالت کا کیا ہوگا
میں کہتا ہوں، کوئی دن میں بلائیں لوٹ آتی ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے ،کربلا کیا پھر بپا ہو گی
میں کہتا ہوں ،نہیں اب ا س قدر تنہا نہیں کوئی
وہ بولی، درد کے اس پار بھی اک درد ہوتا ہے
میں اس کے بعد کتنی دیر تک کچھ بھی نہیں بولا
فرحت عباس شاہ
This poetry should be add in gunniess book. World longest poetry