شام کے بعد - اول


کتاب : شام کے بعد
(اول)
شاعر : فرحت عباس شاہ
کمپوزر : زین شکیل



**********************

بے مائیگی

میرے اللہ 
میں نے جب بھی
تیرے بارے لکھنا چاہا
میں نے دیکھا
میرے ہاتھوں میں لرزش ہے
آنکھوں میں گھنگھور گھٹا

فرحت عباس شاہ

**********************

تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد 
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد

اتنے چپ چاپ کے رستے بھی رہیں گے لا علم 
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد 

میں نے ایسے ہی گنہ تیری جدائی میں کیے 
جیسے طوفاں میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد 

شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا 
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد 

رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا 
کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد 

تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ 
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد 

لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج 
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد

فرحت عباس شاہ

**********************

اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا 
اس کی آواز کا منتظر تھا نگر ، چاند خاموش تھا 

کون تھا جس کی آہوں کے غم میں ہوا سرد تھی شہر کی 
کس کی ویران آنکھوں کا لے کے اثر، چاند خاموش تھا 

وہ جو سہتا رہا رتجگوں کی سزا چاند کی چاہ میں 
مرگیا جب تو نوحہ کناں تھے شجر، چاند خاموش تھا 

اس سے مل کے میں یوں خامشی اور آواز میں قید تھا 
اک صدا تو مرے ساتھ تھی ہم سفر ، چاند خاموش تھا 

کل کہیں پھر خدا کی زمیں پر کوئی سانحہ ہوگیا 
میں نے کل رات جب بھی اٹھائی نظر ، چاند خاموش تھا

فرحت عباس شاہ

**********************

لبوں پہ گیت تو آنکھوں میں خواب رکھتے تھے
کبھی کتابوں میں ہم بھی گلاب رکھتے تھے

کبھی کسی کا جو ہوتا تھا انتظار ہمیں
بڑا ہی شام وسحر کا حساب رکھتے تھے

فرحت عباس شاہ

**********************

کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو 

کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو
 خیال رکھنا
ہوائیں، بادل، فضائیں، موسم، خیال
 چہرے بدل بدل کر تمہیں ملیں گے
تو لمحہ لمحہ بدلتے رنگوں کے شوخ دھوکےمیں آ نہ جانا
کبھی جو چاروں طرف تمہارے
کرن کرن اپنا خواب آساں بدن نکھارے
زمیں پہ اترے
 تو دھندلکوں میں سما نہ جانا
کبھی جو آنکھوں میں چاند ہنس ہنس کے چاندنی کا خمار بھر دے
تو اپنی آنکھیں کہیں خلا میں گنوا نہ آنا 
کہ یہ نہ ہو پھر جو خواب ٹوٹے
دھنک دھنک کا سراب ٹوٹے
کہ جسم و جاں پر عذاب ٹوٹے
اور تم ۔بمشکل لرزتے ہاتھوں سے
کرچی کرچی بدن سنبھالے 
کہیں بلندی پہ چڑھ کے رستی ہوئی نگاہوں سے 
واپسی کے نشان ڈھونڈوں
اجڑ گیا جو جہان ڈھونڈوں
کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو خیال رکھنا
کہیں سے خالی پلٹ کے آنا بہت کٹھن ہے
 بہت کٹھن ہے۔

فرحت عباس شاہ

**********************

تمہیں واپس بلاتی ہیں

ہم اپنے آپ کو
پتھر انا کے خوف سے
جتنا بظاہر پر سکون رہنے کی عادت ڈال لیں
پر ہجر کی بے چین یخ بستہ ہوا سے
راکھ میں ڈھلتی تمنائیں بھی
آخر کپکپاتی ہیں
صدائیں لڑکھڑاتی ہیں
تمہیں معلوم تو ہو گا
کہ کچی عمر کی چاہت
ہزاروں سال بھی دل کے کسی گہرے سمندر میں رہے پابند
پر
پھر بھی کبھی مرتی نہیں
میں نے بہت عرصہ تمہیں
یادوں ، خیالوں، اور خوابوں کی نگاہوں سے کیا اوجھل
مگر جاناں
میں اپنے آپ سے اب لڑتے لڑتے تھک گیا ہوں
اور
اکیلے پن کے ویراں شہر میں جب شام ڈھلتی ہے
تو مدّت سے تھکی ہاری وفائیں
سوگ میں ڈوبے ہوئے کچھ گیت گاتی ہیں
تمہیں واپس بلاتی ہیں 

فرحت عباس شاہ

**********************

تپش سے بچ کے گھٹاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
گئے ہوؤں کی صداؤں میں بیٹھ جاتے ہیں

ہم ارد گرد کے موسم سے جب بھی گھبرائیں
ترے خیال کی چھاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

اپنی اپنی سوچ اپنے پیرائے ہیں
ہم نے خُود سے بھی کُچھ روگ چُھپائے ہیں

گھر کی وِیرانی سے تو مانوس ہی تھے 
ہم تو شہروں کی چُپ سے گھبرائے ہیں

آبادی سے نِکلے تو معلوم ہُوا 
آگے تنہائی ہے ، پیچھے سائے ہیں 

آزادی کے دن سب نے تعزیروں سے  
خوفزدہ ہو کر بازار سجائے ہیں 

اپنے خالی کمرے مِیں تنہا ، اکثر 
مَیں نے دیواروں پر شہر بسائے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

سوچتے رہنے کی عادت ہو گئی
چونکتے رہنے کی عادت ہو گئی

ہجر کی راتوں کے سنگ آنکھوں کو بھی
جاگتے رہنے کی عادت ہو گئی

جانے کیا ڈر ہے کہ اپنے آپ سے
بھاگتے رہنے کی عادت ہو گئی

وہ نہیں لوٹے گا پھر کیوں رہگزر
دیکھتے رہنے کی عادت ہو گئی

وہ مرے اندر چھپا ہے اور اُسے
بولتے رہنے کی عادت ہو گئی

فرحت عباس شاہ

**********************

**********************

ایک شعر

گھر جانے سے اتنے خوفزدہ ہیں لوگ
رات گئے تک بازاروں میں پھرتے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

پر یہ دل یہ سودائی 

منظروں سرابوں کی 
شدتوں سے گھبرا کر 
راہ تو بدل لی ہے
پر یہ دل یہ سودائی ۔۔
روک روک لیتا ہے 
ڈوب ڈوب جاتا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

ہزار رستہ بدل کے دیکھا

ہمیں پتہ ہے کہ
ہم نے کتنا سنبھل کے دیکھا
نئی اور انجانی رہگزاروں پہ چل کے دیکھا
ہزار رستہ بدل کے دیکھا
مگر مری جاں!!
ہر ایک رستہ تمہاری جانب پلٹ گیا ہے
تمام نقشہ اُلٹ گیا
اور اس سفر میں
وجود زخموں سے اَٹ گیا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

لاکھ دوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا 
جب بھی بارش ہو مِرا سوگ مناتے رہنا 

تم گئے ہو تو سر شام یہ عادت ٹھہری 
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا 

فرحت عباس شاہ

**********************

اداس شامیں، اُجاڑ رستے کبھی بلائیں تو لوٹ آنا
کسی کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب آئیں تو لوٹ آنا

ابھی نئی وادیوں، نئے منظروں میں رہ لو مگر مِری جاں
یہ سارے اک ایک کر کے جب تم کو چھوڑ جائیں تو لوٹ آنا

جو شام ڈھلتے ہی اپنی اپنی پناہ گاہوں کو لوٹتے ہیں
اگر وہ پنچھی کبھی کوئی داستاں سنائیں تو لوٹ آنا

نئے زمانوں کا کرب اوڑھے ضعیف لمحے نڈھال یادیں
تمھارے خوابوں کے بند کمروں میں لوٹ آئیں تو لوٹ آنا

میں روز یونہی ہوا پہ لکھ لکھ کے اس کی جانب یہ بھیجتا ہوں
کہ اچھے موسم اگر پہاڑوں پہ مسکرائیں تو لوٹ آنا

اگر اندھیروں میں چھوڑ کر تم کو بھول جائیں تمھارے ساتھی
اور اپنی خاطر ہی اپنے اپنے دیے جلائیں تو لوٹ آنا

مِری وہ باتیں تو جن پہ بے اختیار ہنستا تھا کھلکھلا کر
بچھڑنے والے مِری وہ باتیں کبھی رُلائیں تو لوٹ آنا

فرحت عباس شاہ

**********************

ایک وحشت سی طاری ہے ماحول پر ، آسماں زرد ہے
سبز موسم میں پیلے شجر دیکھ کر آسماں زرد ہے

آج خوشیاں منانے کا دن ہے یہ حاکم کا فرمان ہے
ہم یہ خوشیاں منا بھی رہے ہیں مگر آسماں زرد ہے

ایسا لگتا ہے منزل سے پہلے کوئی قافلہ لُٹ گیا
اے مسافر ذرا دیکھ تو اِک نظر آسماں زرد ہے

کل تو جنگل کے جل جانے کے سوگ میں آسماں زرد تھا
آج بستی کی ویرانیاں دیکھ کر آسماں زرد ہے

اس کو بے حس یا پتھر کا انسان ہونے کا طعنہ نہ دو
جس کی بینائی کم ہو اُسے کیا خبر آسماں زرد ہے

آسمانوں پہ رہ کے ہے ممکن زمینوں کا ڈھب دیکھنا
اے خدا! تو کسی دن زمیں پہ اُتر آسماں زرد ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

جلتی بجھتی دھوپ میں سرد ہوا میں رہنا سیکھ لیا
اُس سے بچھڑ کے ہجر کا اِک اِک موسم سہنا سیکھ لیا

چساحل ساحل ٹکرا کے جب چُور ہوئے تو ہم نے بھی
دریا کی لہروں میں لہریں بن کر بہنا سیکھ لیا

اپنا دکھ بس اپنا ہی ہوتا ہے یہ جان لیا
اپنے آپ سے اپنی ساری باتیں کہنا سیکھ لیا

نئی نویلی تنہائی کی بانہیں ڈال کے بانہوں میں
رات گئے تک نہر کے کنارے بیٹھے رہنا سیکھ لیا

فرحت عباس شاہ

**********************

میں دانستہ نہیں بچھڑا

ستم دیکھو
ابھی پوری طرح سنبھلے نہیں تھے اور
ابھی سے جسم وجاں کا قرض
ناکردہ گناہوں کی سزا بن کے
بدن اور خواب کے در پے ہوا ہے
تم یقیں جانو 
میں دانستہ نہیں بچھڑا
میں اپنی ڑندگی کے جرم کی پاداش میں 
وحشت زدہ دن رات لے کر
اپنے ہی ہاتھوں میں
خود اپنے ہی خالی ہاتھ لے کر
جان
خود کو بیچنے نکلا ہوا ہوں اور
نجانے کب،کہاں اور کس قدر 
قیمت لگے
قیمت لگے بھی یا۔۔۔۔

فرحت عباس شاہ

**********************

نیو کیمپس

نہر کے کنارے پر
شام سے ذرا پہلے
تتلیاں بکھرتی ہیں
خوشبوؤں کی لہروں میں
ڈوبتی اُبھرتی ہیں
آتے جاتے پھولوں کو 
چھیڑ کر گزرتی ہیں
اور اپنی آنکھوں سے
جگنوؤں کی آنکھوں میں
راستے بناتی ہیں
روح میں اترتی ہیں
------
نہر کے کنارے پر
تتلیوں کے خیموں کے
 ارد گرد دیوانے 
پنچھیوں کی پروازیں
چھو کے گدگدا جاتی
شوخ وشنگ آوازیں
کتی پیاری لگتی ہیں
۔۔۔۔۔۔
نہر کے کنارے پر
اک کنارہ ایسا ہے
جس جگہ اکیلے میں 
بے زباں پیڑوں کے
آسروں سے لگ لگ کر
یاد بین کرتی ہے
آس ڈگمگاتی ہے
خامشی کے صدمے سے
سانس لڑکھڑاتی ہے
بار بار گھبرا کر
ڈوب ڈوب جاتی ہے
جان! اس کنارے پر
آنکھ کا کنارا ہے
وحشتوں کا دھارا ہے
زرد زرد پتے ہیں
سرد سرد جھونکے ہیں
کوئی بے سہارا ہے
نہر کے کنارے پر

فرحت عباس شاہ

**********************

**********************

ایک شعر

بچھڑے یوں کہ ریت پہ گم سُم بیٹھے بیٹھے
اُس نے میرا میں نے اُس کا جُرم لکھا

فرحت عباس شاہ

**********************

تمہارا پیار مرے چار سُو ابھی تک ہے
کوئی حصارمرے چار سُو ابھی تک ہے

بچھڑتے وقت جو تم سونپ کر گئے تھے مجھے
وہ انتظار مرے چار سُو ابھی تک ہے

توخود ہی جانے کہیں دور کھو گیا ہےمگر
تری پکار مرے چار سُو ابھی تک ہے

میں جب بھی نکلا مرے پاؤں چھید ڈالے گئے
جو خار زار مرے چار سُو ابھی تک ہے

میں اب بھی گرتے ہوئے پانیوں کی قید میں ہوں
اک آبشار مرے چار سُو ابھی تک ہے

کوئی گمان مجھے تم سے دور کیسے کرے
کہ اعتبار مرے چار سُو ابھی تک ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

تین شعر

لفظ ہیں جیسے خالی رستے، بات کھنڈر ویران
دل کے روگ نے کر ڈالی ہے ذات کھنڈر ویران

دور سےکیسا ہنستے بستے شہروں جیسا لگتا تھا
لیکن پاس آئے تو آیا ہاتھ کھنڈر ویران

روح کے اندر سُکھ اور دُکھ کے اپنے اپنے ڈیرے ہیں
اک آباد نگر ہے اس کے ساتھ کھنڈر ویران

فرحت عباس شاہ

**********************

رو دیتا ہوں

ہجر کی نَم آلود ہوا
ہر شام ڈھلے
آنکھ بھگو جاتی ہے
اور میں دھیرے سے
دروازہ بند کرتا ہوں
رو دیتا ہوں

فرحت عباس شاہ

**********************

ہجر کی مسافت میں

ہجر کی مسافت میں
دل تمہارے بن جاناں
بار بار گھبرا کر
زندگی کے رستے سے
دور دور ہو جائے
جیسے کوئی دیوانہ
وحشتوں کے گھیرے میں
شہر کے گلی کوچے
چھوڑ کر کسی بن میں
دوریوں سے ٹکرا کر
چور چور ہو جائے

فرحت عباس شاہ

**********************

تین شعر

بے اعتبار وقت پہ جھنجھلا کے رو پڑے
کھو کر کبھی اسے تو کبھی پا کے رو پڑے

خوشیاں ہمارے پاس کہاں مستقل رہیں
باہر کبھی ہنسے بھی تو گھر آکے رو پڑے

کب تلک کسی کے سوگ میں روئیں گے بیٹھ کر
ہم خود کوکتنی بار یہ سمجھا کے رو پڑے

فرحت عباس شاہ

**********************

رُت نہیں تھی تو رہا جی کا سنبھلنا مشکل 
آج موسم ہے تو زنداں سے نکلنا مشکل

چار سُو دائرہ در دائرہ پھیلی چاہت
اتنی مضبوطی سے قائم کہ نکلنا مشکل

آج کے دَور میں نادار کا جینا یُوں ہے
جیسے معزور کا دیوار پہ چلنا مشکل

سچ نہ بولو کہ ابھی شہر میں موسم ہی نہیں 
اِن ہواؤں میں چراغوں کا ہے جلنا مشکل

سرسراتے ہوئے جھونکو اسے جا کر کہنا
ہو چُکا ہے دِل وحشی کا سنبھلنا مشکل

یہ بھی کہنا کہ مِلے ہم سے تو ہنس کر کیونکہ
ہوگا کب اُس کے لیے چہرہ بدلنا مشکل

فرحت عباس شاہ

**********************

سب اپنی ذات کے کرب و بلا کی قید میں ہیں
اور ایک ہم کہ جو اب تک وفا کی قید میں ہیں

کوئی خبر ہے سفر کی نہ منزلوں کا پتہ
ہمیں تو عمر ہوئی رہنما کی قید میں ہیں

تھکے تو نظریں چھڑا لائے آسمانوں سے
مگر وہ لب کہ جو اب تک دعا کی قید میں ہیں

نظر ہوئی ھے بمشکل سکوت سے مانوس
سماعتیں تو ابھی تک صدا کی قید میں ہیں

سراب ہیں سبھی آزادیاں فضاؤں کی
کہیں پرندے کہیں پَر ہوا کی قید میں ہیں

جب اپنے جیسی ہی مخلوق کے شکنجے سے 
ہوئے رہا تو یہ دیکھا خدا کی قید میں ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

تین شعر

بے آسرا تھے بحر سے نہیں ڈرے
کہیں کسی بھی لہر سے نہیں ڈرے

ترے لئے تو کفر تک کو چھُو لیا
کہ ہم خدا کے قہر سے نہیں ڈرے

گلی گلی کی چپ ہی کچھ وجیب تھی
ہم اپنے آپ شہر سے نہیں ڈرے

فرحت عباس شاہ

**********************

ون وے

تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سُر
تمہیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض

فرحت عباس شاہ

**********************

تم نے سُن لیا ہوگا

چاہتوں کے موسم میں
زخم جو بھی لگ جائے
عمر بھر نہیں سلتا
تم نے سن لیا ہوگا 
شہر کی ہواؤں سے 
وہ جو ایک دیوانہ
آتے جاتے راہی کو
راستوں میں ملتا تھا
اب کہیں نہیں ملتا 

فرحت عباس شاہ

**********************

**********************

یہ نیند کی دیوی بھی عجب دشمن ِ جاں ہے
آنکھوں سے سدا دور رہے رات گئے تک

پسپا ہوئے تنہائی کی یلغار سے جب بھی
ہم شہر میں آوارہ پھرے رات گئے تک

فرحت عباس شاہ

**********************

موسموں کا تو تشّدد جاری رہا ، زندگی تھک گئی
سرد راتیں بدن جھولتا چیتھڑا ، زندگی تھک گئی

آنگنوں میں اُگی وحشتوں میں گھـرے جسم و جان دیکھ کر
رات چاند اور ستاروں نے بھی کہہ دیا ، زندگی تھک گئی

ہم نے صدیوں ہوا کے تھپیڑوں کو سینے پہ روکا مگر
آگے جانے کہاں تک چلے سلسلہ ، زندگی تھک گئی

تیرگی کے پروں سے اُڑے اور تُم چوٹیوں تک گئے
پیچھے اک بار تو مُڑ کے دیکھو ذرا ، زندگی تھک گئی

وہ جو چپ چاپ بچھڑے ہوؤں کا رہا منتظر آج تک
گھر کی ایک ایک دیوار پر لکھ گیا زندگی تھک گئی

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

میں بولا مجھ سے بات کرو وہ بولا پاگل آوارہ
پھر میں نے خود کو دیر تلک خود لکھا پاگل آوارہ

وہ ٹھہرا ٹھہرا سا پانی وہ سُلجھا سُلجھا سا موسم
میں اُلجھا اُلجھا سا شاعر میں ٹھہرا پاگل آوارہ

فرحت عباس شاہ

**********************

تو یہ بھی لکھنا

اُداسیوں کا سبب جو لکھنا
تو یہ بھی لکھنا
کے چاند، تارے، شہاب آنکھیں بدل گئے ہیں 
وہ زندہ لمحے جو تیری راہوں میں 
تیرے آنے کے منتظر تھے
وہ تھک کے سایوں میں ڈھل گئے ہیں 
وہ تیری یادیں خیال تیرے، وہ رنج تیرے ملال تیرے 
وہ تیری آنکھیں، سوال تیرے 
وہ تم سے میرے تمام رشتے بچھڑ گئے ہیں، اُجڑ گئے ہیں
اُداسیوں کا سبب جو لکھنا
تو یہ بھی لکھنا
لرزتے ہونٹوں پہ لڑکھڑاتی دعا کے سورج
پِگھل گئے ہیں 
تمام سپنے ہی جل گئے ہیں 

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

موسم تھا بے قرار تمہیں سوچتے رہے
کل رات بار بار تمہیں سوچتے رہے

بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگے ہم
چپ چاپ سوگوار تمہیں سوچتے رہے

فرحت عباس شاہ

**********************

کون سے دُکھ کی بات کریں

تم تو بس ایک ہی دُکھ پوچھتے ہو
کون سے دُکھ کی کریں بات ذرا یہ تو بتا
موسموں ،سرد ہواؤں کی مسیحائی کا دُکھ
راہ کی دُھول میں بکھری ہوئی بینائی کا دُکھ
سنگ کے شہر میں خود دُکھ سے شناسائی کا دُکھ
یا کسی بھیگتی برسات میں تنہائی کا دُکھ
کون سے دُکھ کی کریں بات کہ دل کا دریا
اتنی تغیانی کی زد پر ہے کہ کچھ یاد نہیں
کب ہمیں بھول گیا کون سے ہرجائی کا دُکھ
تم تو بس ایک ہی دُکھ پوچھتے ہو

فرحت عباس شاہ

**********************

جو اس کے چہرے پہ رنگِ حیا ٹھہر جائے
تو سانس، وقت، سمندر، ہوا ٹھہر جائے

وہ مسکرائے تو ہنس ہنس پڑیں کئی موسم
وہ گنگنائے تو بادِ صباٹھہر جائے

سبک خرام صبا چال چل پڑے جب بھی
ہزار پھول سرِ راہ آ ٹھہر جائے

وہ ہونٹ ہونٹوں پہ رکھ دے اگر دمِ آخر
مجھے گماں ہے کہ آئی قضا ٹھہر جائے

میں اس کی آنکھوں میں جھانکوں تو جیسے جم جاؤں
وہ آنکھ جھپکے تو چاہوں ذرا ٹھہر جائے

فرحت عباس شاہ

**********************

اقرار گئے انکار گئے ہم ہار گئے
آنکھوں سے سب آثار گئے ہم ہار گئے

کچھ یادیں اُس کی بیچ سمندر ڈوب گئیں
کچھ سپنے رہ اُس پار گئے ہم ہار گئے

جب تنہا اپنی ذات سے جنگ پہ نکلے تو
بھگوان گئے، اوتار گئے، ہم ہار گئے

اک عمر رہے ہیں جیت سے بے پرواہ لیکن
جب جتنا چاہا، ہار گئے، ہم ہار گئے

یوں اُلجھے دنیا کے دکھ میں بے سدھ ہو کر
سب جھوٹے سچے پیار گئے ہم ہار گئے

پہلے تو پریت میں اپنے آپ سے دور ہوئے
پھر یار گئے، دلدار گئے، ہم ہار گئے

فرحت عباس شاہ

**********************

ایک شعر

اک بارونق شہر سے خالی واپس آکر
میں نے اپنا شہر بسایا تنہائی میں

فرحت عباس شاہ

**********************

کِسے خبر ہے

کسے خبر ہے
کہ جب کسی رات
چاند بدلی کی نرم زلفوں میں
منہ چھپاے
یا سرسراتی ہوا کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
خلا کے اٌنگن میں کھیلتا ہے
تو دور بیٹھا کوئی اکیلا
اُداس راتوں کی کرب آلود مدتوں کو
نحیف آنکھوں پہ جھیلتا ہے
کسے خبر ہے
کہ ایسے عالم میں
دل بمشکل نڈھال سانسیں دھکیلتا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

**********************

جان لیوا شبیں

جان لیوا شبیں
چاہنے والیوں کے لیے
زہر قاتل ہیں جو
اُن کی آنکھوں سے نیندوں کو یوں نوچ کر
پھینک دیتی ہیں جیسے
کوئی راہروِ پیرہن سے اُلجھتی ہوئی شاخ کو
اور تمھیں یہ پتہ ہے
کہ چاہت کی ہر ابتدا شب کی بیداریوں سے ہے
جب تک کوئی آنکھ سیاہی ہی لپٹے ہوئے آسمانوں سے
روشن ستارے نہ دل میں اتارے
تو یہ جان لو ایسی صحرا صفت آنکھ میں کوئی چہرہ
بسا ہی نہیں۔
میں ترے اعترافِ محبت سے ڈرتا نہیں
خوف ہے تو یہی ہے کہ اے جان من
جان لیوا شبیں چاہنے والیوں کے لئے زہرِ قاتل ہیں جو
تیری آنکھوں کے رستوں سے
دل میں اُتر کر
تمھیں عمر بھر
ہر نئی شب نئی زندگی دے کے پھر
ہر نئی شب نئی موت دے جائیں گی
ہر نئی شب نئی موت دے جائیں گی

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

کئی زمانے میں اپنی کڑی شکست کے بعد
خود اپنے ٹوٹے ہوئے بازوؤں میں قید رہا

وہ ایک چہرا جو آنکھوں میں آ بسا تھا کبھی
تمام عمر مرے آنسوؤںمیں قید رہا

فرحت عباس شاہ

**********************

روح پہ اب افتاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے
رہ رہ کر جب یاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے

آنکھ نے اتنے شہر اجڑتے دیکھے ہیں کہ رستے میں
اب بستی آباد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے

وہ لڑکی جو دشمن کا ہر حملہ ہنس کر سہتی ہے
اپنوں کی امداد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے

اس کو ویرانوں سے گھور اندھیروں سے کچھ خوف نہیں
لیکن آدم زاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے

دل میں اتنی گہری چپ ہے اتنا گم سناٹا ہے
بھولی بھٹکی یاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے

دل اس شہر میں جیسے اک پر ٹوٹی تن تنہا چڑیا
جنگل میں صیاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

ہاں یہ ہو گا کہ ذرا دل کو سنبھالے دے گا 
ورنہ یہ خواب سفر آنکھ کو چھالے دے گا

کون راتوں کو جلائے گا تری یادوں کو
کون یوں بعد مرے تجھ کو اجالے دے گا

دیس سے دور رہو ورنہ یہ آزاد وطن
بیڑیاں پاؤں کو اور ہونٹ کو تالے دے گا

پہلے معیار بنا لے گا چمکتے ملبوس
پھر وہ فہرست سے کچھ نام نکالے دے گا

اک ذرا پاؤں میں جھنکار بجے سِکّوں کی
پھر مرے نام کے ہر شخص حوالے دے گا

اب تو آ جا کہ تھکا ہارا مسافر آخر
کب تلک ڈوبتی سانسوں کو سنبھالے دے گا

فرحت عباس شاہ

**********************

دوشعر

یوں تری چاہتوں سے گزرے ہیں
جیسے کوئی حصار سے گزرے

خواب میں تُو نہیں ملا اور ہم
بادلوں کی قطار سے گزرے

فرحت عباس شاہ

**********************

کبھی جو کوئی پوچھ لے


سہیلیو !
کبھی جو کوئی 
چاہتوں ، محبتوں کے بارے تم سے پوچھ لے 
ہر ایک پل گواہ ہے 
کہ کس طرح ہمارے اجلے اجلے دل دعاؤں جیسی 
چاندنی میں نکھری نکھری چاہتوں کے گیت سے 
فرشتوں جیسی پریت سے بھرے رہے 
ہر ایک پل گواہ ہے 
نگہ اٹھی تو اس قدر حیا کی روشنی لئے 
کہ آس پاس داغ داغ آنکھ بھی چمک اٹھی 
زباں ہلی تو لفظ اپنی عظمتوں کو دیکھ کر 
خود اپنے آپ دل میں سرخرو ہوئے
ہر ایک سوچ آیتوں کا ترجمہ بنی رہی 
ہر ایک خواب روح سے نکل کے جیسے روح میں اتر گیا 
سہیلیو !
کبھی جو زندگی میں کوئی چاہتوں ، محبتوں کے بارے تم سے پوچھ لے 
تو تم ضرور عبادتوں کے بارے اس سے پوچھنا 

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

بھول کر ذات تم کو یاد کیا
بات بے بات تم کو یاد کیا

نیند ناراض ہو گئی ہم سے
ہم نے جس رات تم کو یاد کیا

فرحت عباس شاہ

**********************

وہ آخری شام

نئی رتوں کے نئے سفر میں 
تمہیں اجازت ہے بھول جانا 
ہزار سالوں پہ ثبت چاہت کی پوری تاریخ بھول جانا 
مگر مِری جاں 
سراب ماضی کے خواب آلودہ روز و شب کی وہ شام یاد رکھنا 
وہ آخری شام 
جب تمہاری مری نگاہوں نے 
ایک دوجے کے دل کے اندر اتر کے شفاف آئینوں میں 
خود اپنے چہروں کے عکس دیکھے تو رو پڑے تھے 
وہ آخری شام 
جب مجھے تم نے یہ کہا تھا 
کہ چاند دیکھو تو سرسراتی ہوا کے دل پہ مری 
تمنا کے نام کوئی پیام لکھنا 
وہ آخری شام یاد رکھنا 
تری نگاہوں سے جب میں اپنی نگہ چھڑا کے 
پلٹ رہا تھا 
تو تم نے کچھ بھی نہیں کہا تھا 
مگر ہوا میں نمی اچانک ہی بڑھ گئی تھی 

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

تمام دن بھی تو بانٹا ہے غیر لوگوں میں
یہ رات تیرے خیالوں میں کٹ گئی تو کیا

بہت کٹھن تھا پس چشم روکنا سیلاب
جو بولتے ہوئے آواز پھٹ گئی تو کیا

فرحت عباس شاہ

**********************

میں نے دیکھا دیوانوں کو شام کے بعد
ڈھونڈ رہے تھے ویرانوں کو شام کے بعد

تاریکی پھر سارے عیب چھپا لے گی
لے آنا گھر مہمانوں کو شام کے بعد

میں نے اس کا سوگ منایا کچھ ایسے
خالی رکھا پیمانوں کو شام کے بعد

یاد کرے جب مجھ کو تیری تنہائی
دیکھا کرنا گلدانوں کو شام کے بعد

فرحت چاندکے خوف سے کر لیتا ہوں بند
کمرے کے روشن دانوں کو شام کے بعد

فرحت عباس شاہ

**********************

**********************

ایک ادھوری نظم

میں کیا لکھوں؟
محبت کائناتی وسعتوں سے بھی
کہیں آگے کی لامحدود وسعت ہے
کسی چہرے کو آنکھوں اور خوابوں کی دعا پر نقش کرنا
اس کے بارے سوچنا
اور اپنی ہر خواہش کو بس اُس ذات تک محدود کر لینا
محبت ہے
ٹھٹھرتی آبشاروں میں بُجھی ٹھنڈی ہوا سہنا
شبوں کے گنبدوں میں گونجتی بے چینیوں کے درمیاں رہنا
ہر اک موسم کو اپنے اندرونی موسموں کی زد میں لے آنا
کبھی مِل کے کسی سے
بےخبر، آدھے سمندر تک سفر کرنا
کبھی تنہا کسی ساحل پہ آ کے دیر تک لہروں کو گننا
اور خلا میں دیکھتے رہنا محبت ہے
کبھی کھوئے ہوئے کو غیرارادی طور پر
ہر اجنبی چہرے میں اکثر ڈھونڈتے رہنا
ہمیشہ بےخیالی میں
کتابوں ،چاند تاروں ،بادلوں پر
اس کے بارے میں جھلملاتی بات لکھ دینا
یا پھر لکھ کے مٹا دینا
کبھی رنگوں کی لہروں پر
اُسے بےصوت ہونٹوں سے صدا دینا
صدا کو بازگشت اور گونج میں ڈھل کر
خلاؤں سے تہی دامن پلٹتے دیکھنا
اور پھر صدا دینا
محبت ہے
میں کیا لکھوں ؟
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
بہت ہی روٹھ کر،ناراض ہو کر
ناپسندیدہ خیالوں ،نفرتوں کی اوٹ سے
یا مختلف حیلوں بہانوں سے
کسی کو جھانکتے رہنا
کسی کو سوچتے رہنا
وہ مانے یا نہ مانے بس اُسے لکھنا اُسے کہنا
محبت ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

کہیں آرزوئے سفر نہیں کہیں منزلوں کی خبر نہیں
کہیں راستہ ہی اندھیر ھے کہیں پا نہیں کہیں پر نہیں

مجھے اضطراب کی چاہ تھی مجھے بے کلی کی تلاش تھی
انھیں خواہشات کے جرم میں کوئی گھر نہیں کوئی در نہیں

کوئی چاند ٹوٹے یا دل جلےیا زمیں کہیں سے ابل پڑے
ہم اسیرِصورت ِحال ہیں ہمیں حادثات کا ڈر نہیں

اے ہوائے موسمِ غم ذرا مجھے ساتھ رکھ مرے ساتھ چل
مرے ساتھ میرے قدم نہیں مرے پاس میری نظر نہیں

یہ جو عمر بھر کی ریاضتیں یہ نگر نگر کی مسافتیں
یہ تو روگ ہیں مہ وسال کا یہ تو گردشیں ہیں سفر نہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

سکوتِ شام ، کسی کا خیال ، سرد ہوا 
کِسی کو توڑ ، کسی کو سنبھال، سرد ہوا

اُجاڑ شہر کی ہر سبز رُت ، کہ پھر باقی 
نہ کوئی دُکھ ہو ، نہ کوئی ملال ، سرد ہوا 

مُجھے روانی کی ساری اذیتوں سے بچا
مَیں،لہر ہُوں مُجھے پتھر مِیں ڈھال، سرد ہوا

تُو پُور پُور جو اُتری ، اُتر کے مار گئی
کہ ہم سمجھ نہ سکے تیری چال ، سرد ہوا

کہیں سے برف گِرا میرے جِسّم پر یا پھر
مُجھے دہکتے بدن سے نِکال ، سرد ہوا

فرحت عباس شاہ

**********************

وقت کو گزرنا ہے

موت کی حقیقت اور
زندگی کے سپنے کی
بحث گو پُرانی ہے
پھر بھی اک کہانی ہے
اور کہانیاں بھی تو
وقت سے عبارت ہیں
لاکھ روکنا چاہیں
وقت کو گزرنا ہے
ہنستے بستے شہروں کو
ایک دن اجڑنا ہے
راحتیں ہوائیں ہیں
چاہتیں صدائیں ہیں
کیا کبھی ہوائیں بھی
دسترس میں رہتی ہیں
کیا کبھی صدائیں بھی
کچھ پلٹ کے کہتی ہیں
پیار بھی نہیں رہنا
اور پیار کا دکھ بھی
آنسوؤں کے دریا کو
ایک دن اترنا ہے
خواہشوں کو مرنا ہے
وقت کو گزرنا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

محبت بھی کچھ ایسی

مجھے خود سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو کسی صحرا کو بارش سے
کہ بارش جس قدر بھی ٹوٹ کر برسے
ذرا پل بھر کو پیاسی ریت کے لب بھیگ جاتے ہیں
مگر بس اک ذرا پل بھر
مجھے خود سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو پرندوں کو فضاؤں سے
 گلوں کو خوشبوؤں سے
منظروں کو لہلہاتے موسموں سے
جس میں چھونے، جذب رکھنے اور گلے مل کے ہمیشہ مسکرانے کےلیے 
دل چاہتوں اور خواہشوں کی سب حدوں کو پار کر جائے
مجھے خود سے محبت ہے مگر
اتنی نہیں جتنی مرے سودائی کو مجھ سے
وہ اپنے رات اور دن، دھوپ چھاؤں، ساحلوں، دریا کناروں کو
فقط اک میرے نقطے میں سمیٹے
اور میری چاہتوں میں
آنکھ سے دل، روح سے وجدان کی ہر کیفیت میں ڈوبتا، روتا، ابھرتا، مسکراتا 
ذات اور معروض کے سارے حوالوں سے کبھی کا کٹ چکا ہے
اور مجھے اس سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو کسی صحرا کو بارش سے

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

سمے جیسے گزرتا جا رہا ہے
کوئی دل سے اترتا جا رہا ہے

بنا تھا ریتلی مٹی سے جیون
بکھرتا ہی بکھرتا جا رہا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

ایک شعر

پرانے پن کی وسیع و عریض دنیا میں
یہ اک خوشی ہی بہت ہے کہ درد اپنا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

تمہارا دھیان باقی رہ گیا ہے
یہی سامان باقی رہ گیا ہے

دعا کی آخری حد پر کھڑا ہوں
درِ بے جان باقی رہ گیا ہے

وفا کے شہر سے سب جا چکے ہیں
دلِ نادان باقی رہ گیا ہے

کسی نے مڑ کے دیکھا تک نہیں ہے
کوئی مہمان باقی رہ گیا ہے

نکل جا شہر میں اور ڈھونڈ کے لا
اگر انسان باقی رہ گیا ہے

کسی بھی چیز کا امکاں نہیں ہے
یہی امکان باقی رہ گیا ہے

اُسے کب ہے گوارا اِس قدر بھی
جو سائبان باقی رہ گیا ہے

مسافر جا چکے ہیں سارے دل کے
مگر ارمان باقی رہ گیا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

**********************

مری جاں تم سے اپنا آپ پیارا کون کرتا ہے
مرض دنیے لگے تسکیں تو چارا کون کرتا ہے

کئی گمنام خوشیاں پھوٹتی ہیں رات بھر دل میں
نجانے خواب میں آکر اشارا کون کرتا ہے

کبھی سوچا نہیں تم نے کہ تم کو ایک مدت سے
سمے کی اوٹ میں چھپ کر پکارا کون کرتا ہے

ابھی تو مل کے چلتے ہیں سمندر کی مسافت میں
پھر اس کے بعد دیکھیں گے کنارا کون کرتا ہے

گھٹائیں کون لاتا ہے مری آنکھوں کے موسم میں
پھر اس کے بعد بارش کا نظارا کون کرتا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

محبت کی ادھوری نظم

اک افسانہ پڑھتے پڑھتے چھوڑ دیا
اور اپنی اک نظم ادھوری رہنے دی
سرد ہوا کے جھونکے نے کھڑکی کھولی تو
چونک گیا
اور پھر کافی رات گئے جب نیند آئی تو
آنکھیں ہنس دیں
پلکیں اپنا آپ جھپکنا بھول گئیں

فرحت عباس شاہ

**********************

ایک شعر

لاکھ مسیحا تھک ہارے سو چارہ گر ناکام ہوئے
لیکن پاگل پن اپنی ہی من مانی سے دور ہوا

فرحت عباس شاہ

**********************

جلنے لگی لہو میں جدائی تو رو دیے 
تنہائیوں نے خاک اڑائی تو رو دیے

چہرے نے تیرا روگ چھپایا تو ہنس دیے
آنکھوں نے تیری یاد منائی تو رو دیے

خوشبو نے کوئی یاد دلایا تڑپ اٹھے
پھولوں نے داستان سنائی تو رو دیے

گزرا ہے ہم پہ خود یہی عالم اسی لیے
ہنسنے لگی کسی پہ خدائی تو رو دیے

راس آ چکی تھی تیرگیء شب کچھ اس قدر
گر شمع بھی کسی نے جلائی تو رو دیے

فرحت عباس شاہ

**********************

خالی کاغذ پہ حرف سجایا کرتا تھا 
تنہائی میں شہر بسایا کرتا تھا

کیسا پاگل شخص تھا ساری ساری رات
دیواروں کو درد سنایا کرتا تھا

رو دیتا تھا آپ ہی اپنی باتوں پر
اور پھر خود کو آپ ہنسایا کرتا تھا

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

اپنا پن بھی اس بیگانے پن میں ہے
پورا عالم اک دیوانے پن میں ہے

یہ جو تم سے میں انجان بنا پھرتا ہوں
ساری بات اسی انجانے پن میں ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

محبت کی ادھوری نظم 

اے جان!
تمھارا نام
کوئی بھی شام چرا کر لے جاتا ہے
جب جی چاہے
بام گرا جاتا ہے
تیری میری ساری رنجش کی
اک کام ابھی باقی ہے میرے کرنے کا
یہ ٹوٹے دل کا جام ابھی دھونا ہے مجھ کو
اور بسا رکھنا ہے کوئی اور
کوئی پیغام، کوئی ابہام، کوئی انجام
کہ اس کے بعد مری ہر شام
فقط میری ہی ہو
اے جان!
تمھارا نام کوئی بھی شام چرا کر لے جاتا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

تمہارے بعد سپنے بن رہی ہے 
اداسی سے کیا راکھ چن رہی ہے

ذرا آہستہ بول اے یاد یاراں
میری تنہائی سب کچھ سن رہی ہے

تمہارے کرب کی پر کیف لَے پر
میری دھڑکن ابھی سر دُھن رہی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

جہاں جہاں برسات اترتی دیکھی ہے
ہر سو تیری یاد بکھرتی دیکھی ہے 

تم سے پہلے دل سا بزدل کوئی نہ تھا 
اور پھر دل سے دنیا ڈرتی دیکھی ہے 

ویرانے بھی ہم نے دیکھے چلتے پھرتے
خاموشی بھی باتیں کرتی دیکھی ہے 

دل کے گہرے سناتے میں راتوں کو 
کبھی کبھی اک کُوک ابھرتی دیکھی ہے 

بس اک جینے کی خواہش تھی اور وہ بھی 
ہم نے اپنی آنکھوں مرتے دیکھی ہے 

فرحت عباس شاہ

**********************

خزاں نصیب

اجنبی دیس میں
ایسے بھی ہوا کرتا ہے
چاہتیں راہ بھٹک جاتی ہیں
اور نہیں ملتی سرائے کوئی
اور کوئی جاننے والا بھی نہیں ہوتا کہیں آس نہ پاس
دل کسی ڈوبے ہوئے ڈر سے دھڑک اٹھتا ہے
شہر ہو جاتا ہے کچھ اور بھی تنگ و تاریک
میں تیرے شہر میں کیسا ہوں کسی روز مجھے دیکھنے آ

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

جسم صحرا ہوا ہے اور اس میں
اپنے نیزے اتارتی ہے دھوپ

میرے مجنوں کہاں گئے ہو تُم
چھاؤں چھاؤں پکارتی ہے دھوپ

فرحت عباس شاہ

**********************

**********************

شاہ مزاج تھے سائل کر کے کہتے ہو
سارا جیوں گھائل کر کے کہتے ہو

کچے گھڑے پر تیرا کرتے تھے کچھہ لوگ
سات سمندر حائل کر کے کہتے ہو

پیار میں بے پرواہی اچھی لگتی ہے
جان و دل سب مائل کر کے کہتے ہو

دل کی ساری باتیں سچ نہیں ہوتیں
اک اک دل کو قائل کر کے کہتے ہو

لوگوں کے کانوں سے دور رہے جھنکار
قدم قدم کو پائل کر کے کہتے ہو

فرحت عباس شاہ

**********************

پسِ دیوار

کبھی سوچو
دلوں کے درمیاں دیوار کس نے کھینچ ڈالی ہے
مری آنکھیں ستارے یاد کرکے
تھکی ہاریں تو کس نے خواب بھیجے ہیں
زمینیں پیاس سے پھٹنے لگیں تو بادلوں کو کون لایا ہے
کبھی سوچو دلوں کے درمیاں دیوار کس نے کھینچ ڈالی ہے
اور اس سارے خرابے میں
تمھارا اور میرا ہاتھ کتنا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

دوشعر

محبت میں تونگر ہو رہا ہوں
میں قطرہ تھا سمندر ہو رہا ہوں

ہر اک خانے میں تیرے بُت سجے ہیں
کسی دیوی کا مندر ہو رہا ہوں

فرحت عباس شاہ

**********************

داغ لگے تو دھونے میں بھی عمر لگا دی
ہم نے سپنے بونے میں بھی عمر لگا دی

ہنستے تھے تو صدیاں حیراں ہوتی تھیں
روئے تو پھر رونے میں بھی عمر لگا دی

بیگانے پن میں بھی اس نے عمر بِتائی
اور پھر میرا ہونے میں بھی عمر لگا دی

فرحت عباس شاہ

**********************

ایک شعر

رُکا ہوا ہے عجب دھوپ چھاؤں کا موسم
گزر رہا ہے کوئی دل سے بادلوں کی طرح

فرحت عباس شاہ

**********************

یہ نہ سمجھو کہ ٹل رہی ہے شام
اپنے تیور بدل رہی ہے شام

تم نہیں آئے اور اس دن سے
میرے سینے میں جل رہی ہے شام

پھیلتی جارہی ہے تاریکی
ایک دکھ سے نکل رہی شام

زرد سورج چھپا رہا ہے بدن
لمحہ لمحہ پگھل رہی ہے شام

اوڑھتی جا رہی خامشی!
ایسا لگتا ہے ڈھل رہی ہے شام

اُس کے ہمراہ چل رہا ہے دن
میرے ہمراہ چل رہی ہے شام

فرحت عباس شاہ

**********************

کبھی کچھ یاد آئے تو

اذیت کی نگہداری
اگرچہ انتہائی مشک ہے
مگر اس قریہ قریہ منتشر دوری کے پردے پر
نجانے کب کہاں، کس نے کسی کو سونپ رکھی ہے عجب بے اختیاری ہے
سفر اپنی تہوں میں کیا چھپائے پھر رہا ہے
یہ سفر ہی جانتا ہے
ہم مسافر اپنے قدموں کی صفوں میں گم
رسائی سے ادھر کچھ جھانکنے لگتے
تو ویرانی بھی ہم کو گھر نظر آتی
ہمارے پاس دکھ تو ہیں مگر جاناں
ہمیں اپنے دکھوں کو دل سے بہلانے کا گُر شاید نہیں آتا
کہیں تو در کھلا رکھنے کی عادت میں
پرائی چاپ سے مضروب ہوتے ہیں
کہیں زخموں کی عادت میں کسک کھو بیٹھتے ہیں
اجنبیت کے کسی الزام سے منسوب ہوتے ہیں
اسے چھوڑو
میں اپنی بات کرتا ہوں
نگہداری اذیت کی تمہیں کب یاد ہوگی تم نے کس کو کب کہاں ذمے لگائی تھی
مگر یہ دل دراڑوں سے بھری دیوارِ دل
تختہ تمہاری آزمائش کا
مِری آنکھوں سے اب بھی جھانکنے لگتا ہے حیرت سے
یہ پنجرہ یہ نگہباں پاسداری کا
وریدوں میں لہو کی گردشیں بھی اس کو چبھتی ہیں
تمہیں آنا نہیں لیکن
کسی کو بھیج کر بازار کچھ قیدی پرندوں کو رہا کروا دیا کرنا
کبھی کچھ یاد آئے تو

فرحت عباس شاہ

**********************

اداس پیڑوں کی دل پر ہے باڑ ہجر کی شام
کسی کو توڑ کسی کو اکھاڑ ہجر کی شام

مری نگاہ پہ تو نے بٹھا دیا رستہ
نحیف سینے پہ رکھ دی پہاڑ ہجر کی شام

نہ کوئی گیت نہ کوئی صدا پرندے کی
بسی ہوئی ہے نگر میں اجاڑ ہجر کی شام

ترے ہی دم سے طبیعت میں سوز ہے ورنہ
یہ دن تو ایسے ہے جیسے کباڑ ہجر کی شام

چلو کچھ اور نہیں تو ہمی پلٹ جائیں
کھلے رکھے ہیں کسی نے کواڑ ہجر کی شام

زیادہ تر تو ہے شفاف آئینہ دل کا
کہیں کہیں پہ ہے لیکن دراڑ ہجر کی شام

فرحت عباس شاہ

**********************

دو شعر

دور دور تک پھیل گئی ہے
کیسی شام اتار گئے ہو

کن ویرانوں میں گم سُم ہو
کس دریا کے پار گئے ہو

فرحت عباس شاہ

**********************

یہی سمجھ میں آیا ہے
شہر کا شہر پرایا ہے

بستی بستی میں اس کی
ویرانہ ہمسایہ ہے

جھوٹے رشتوں ناطوں کا
برسوں بوجھ اٹھایا ہے

دل سے تم بھی کہہ دیکھو
ہم نے بھی سمجھایا ہے

کیسا دُکھ ہے فرحت جی
کس نے روگ لگایا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

**********************

شدت

یاد کی
یہ بھی تو مجبوری ہے
کھڑکیاں بند ملیں دل کی
تو بے چینی سے
سر پٹختے ہوئے دہلیز پہ مر جاتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

انتظار

رات اور دن کی مسافت میں
صدی آن بسی
زرد رنگوں میں اٹی سرد ہوا
بھٹکے ہوئے سائے کی مانند چلی آہستہ
پیڑ کی چھال میں رویا جو بھرم سبزے کا
ٹھہرا ٹھہرا سا لگا لمحہء ویراں ہر سُو
دُکھ کی ایک ایک گھڑی چمکی، جلی آہستہ
جب بھی ٹکرا کے تری یاد ست غم پلٹا ہے
دل ک دیوار ست لگ لگ کے ہر اک شام ڈھلی آہستہ

فرحت عباس شاہ

**********************

دشت کی ایک اپنی کہانی ہے تنہائی کی

دل
خوشی میں بھی
کوئی نہ کوئی سبب ڈھونڈ لیتا ہے
افسردگی کا
ترے بعد
اور 
بولتا کچھ نہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

اُفق اُفق سر مارے شام
رو رو وقت گزارے شام

آج بہت گہری ہے زردی
سمجھی آج اشارے شام

کس کی خاطر مر مر جائے 
کس کو روز پُکارے شام

تیری چُپ ہم سے گہری ہے
تو جیتی ہم ہارے شام

صحن سے کون نکالے دن
چھت سے کون اُتارے شام

فرحت عباس شاہ

**********************

رات اک اور نیا ظلم ہوا

خواب دیکھا نہ ترے نام کوئی گیت لکھا

فرحت عباس شاہ

**********************
اختتام
**********************
شام کے بعد -اول
**********************
فرحت عباس شاہ
**********************


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔