مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سنسان سپنے میں چھپی خواہش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں
یا پھر کسی انجان بیماری کی شدت میں
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی بچھڑے ہوئے کی چشم پرنم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکرمیں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریا، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
مجھے تم یاد آتے ہو
فرحت عباس شاہ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔