کبھی بادل وار برس سائیں
مرا سینہ گیا ترس سائیں
میں توبہ تائب دیوانہ
آبادکروں کیا ویرانہ
مر بس سائیں، مری بس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
اس عشق نے عجب اسیر کیا
خود دل سینے میں تیر کیا
کیا چلے گی پیش و پس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
ہم بھی کچھ کھل کر سانسیں لیں
اشکوں سے دھل کر سانسیں لیں
کچھ گھول فضا میں رَس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
فرحت عباس شاہ
(من پنچھی بے چین)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔