کھو گئے ہو یہ تم کہاں جاناں
چار سو ہیں اداسیاں جاناں
ورنہ اک روز مل ہی جاتے ہم
عمر آئی ہے درمیاں جاناں
تم کو دھوکہ ہوا تھا بارش کا
رو دیا ہو گا آسماں جاناں
ہجر ہر موڑ پر کھڑا ہوگا
بھاگ کر جاؤ گے کہاں جاناں
شام ہوتے ہی چھیڑ دیتا ہے
دل مرا دکھ کی داستاں جاناں
دل نے پھر چھیڑ دی غزل کوئی
پھر طبیعت ہوئی رواں جاناں
ایک دنیا ہوئی ہے فرحت سے
تم بھی ہو جاؤ بد گماں جاناں
فرحت عباس شاہ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔