سانسوں کی حرارت سے پگھل جانے کا موسم
آیا ہے تری آنچ میں جل جانے کا موسم
ہم کو نہیں معلوم تھا ہے عشق کا آغاز
یادوں میں کہیں دور نکل جانے کا موسم
لگتا ہے کہ چہرے پہ ترے ٹھہر گیا ہے
یک لخت کئی رنگ بدل جانے کا موسم
اے شہر تسلی ترے مشکور ہیں لیکن
آیا ہی نہیں دل کے سنبھل جانے کا موسم
یہ شہر تمنا بھی انوکھا ہے کہ اس پر
برسات میں بھی رہتا ہے تھل جانے کا موسم
چہرے پہ اگرچہ ہے مرے صبح کا اجالا
آنکھوں میں مگر شام کے ڈھل جانے کا موسم
فرحت عباس شاہ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔