جونہی بستی میں کہیں سے بھی مجھے ڈر آیا
رات بھر خوف کی چوکھٹ پہ بسر کر آیا
ایک احساس کہ لوٹ آیا ہوں غم خانے میں
اور پھر اس پہ یہ لگتا ہے کہ میں گھر آیا
جس قدر ہجر سے بچتا ہوں میں جینے کے لیے
یہ ہمیشہ اسی شدت سے مجھے در آیا
میں کئی بار محبت میں تری جی اٹھا
میں کئی بار جدائی میں تری مَر آیا
میری قربانی بھی دیکھو کہ دکھوں کے بدلے
اپنی خوشیاں تری دہلیز پہ ہوں، دھر آیا
جانے کیونکر مجھے مصلوب کیا جاتا ہے
جانے کیوں نیزے پہ ہر بار مرا سر آیا
فرحت عباس شاہ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔