یاد آؤں اگر اُداسی میں


کتاب: یاد آؤں اگر اُداسی میں
شاعر: فرحت عباس شاہ
کمپوزر: زین شکیل


**********************

تیری طرف سفر کا اشارہ نہیں ملا
مجھ کو سمندروں میں ستارہ نہیں ملا

تم نے ہمیشہ غم کی پنہ میں رکھا مجھے
کیسے کہوں کہ مجھ کو سہارا نہیں ملا

دل تھا کہ جانے کون سے صحرا نکل گیا
سینے میں کوئی درد کا مارا نہیں ملا

کوئی نہ کوئی دکھ تو رہا ہے ہمارے ساتھ
کشتی ملی توہم کو کنارہ نہیں ملا

اک بار وہ کسی کی محبت پہ ہنس دیا
پھر اعتماد اس کو ہمارا نہیں ملا

فرحت عباس شاہ

**********************

بات کی رو میں بہہ گیا ہوں میں
بے خیالی میں کہہ گیا ہوں میں

سوچتا ہوں کہ دنیا داری میں
کس قدر پیچھے رہ گیا ہوں میں

اتنا اندازہ خود مجھے بھی نہ تھا
جتنا غم دل پہ سہہ گیا ہوں میں

جیسے تھا ریت کا گھروندہ کوئی
اتنی تیزی سے ڈھہ گیا ہوں میں

جو نہیں کہہ سکا زبان سے میں
شعر میں وہ بھی کہہ گیا ہوں میں

فرحت عباس شاہ

**********************

جانے کس درد کا دیا ہوں میں
رات اور دن بہت جلا ہوں میں

میں تو صدیوں سے بند مُٹھّی ہوں
کب کسی پر کبھی کھُلا ہوں میں

کم نہیں کر سکا تری مشکل
پر ترے ساتھ تو چلا ہوں میں

میں کہ سورج نہیں مقدر تھا
وقت سے پیشتر ڈھلا ہوں میں

اب ضرورت نہیں رہی اس کو
اس قدر دیر سے ملا ہوں میں

آج آیا نہیں تو یاد مجھے
آج تجھ سے جدا ہوا ہوں میں

اس نے جھپکی ہے آنکھ فرحت جی
ایک ہی پل میں بجھ گیا ہوں میں


فرحت عباس شاہ

**********************

وہ بات سے مُکر گیا
بنا ملے گزر گیا

نظر سے جو گرا کبھی
وہ دل سے بھی اتر گیا

جو مَن میں میل آئی تو
زبان کا اثر گیا

کوئی نہیں تھا شہر میں
میں بے سبب ہی ڈر گیا

ہمیشہ کے لیے کوئی
مجھے اداس کر گیا


فرحت عباس شاہ

**********************

یاد اچانک کوئی کام آجاتا ہے
روتے روتے اب آرام آ جاتا ہے

بل آجاتا ہے لوگوں کے ماتھے پر
جہاں بھی فرحت تیرا نام آجاتا ہے

ہم تو ابھی آغاز میں ہوتے ہیں مصروف
اور اچانک ہی انجام آجاتا ہے

خوشیاں ڈھونڈنے نکلا ہوا دیوانہ دل
لوٹ کے روزانہ ناکام آجاتا ہے

شہر میں اب کوئی بھی اگر سچ بولے تو
میرے ہی سر پر الزام آجاتا ہے


فرحت عباس شاہ

**********************

چاہے تو جیسی ادا سے نکلا
مجھ کو کیا میری بلا سے نکلا

اک لکیر اور مِٹی ہاتھوں سے
ایک سیّارہ خلا سے نکلا

کب بچا موت کے حملے سے کوئی
کب کوئی شہرِ قضا سے نکلا

گھر گیا ایک سے اک وحشت میں
جب سے میں تیری دعا سے نکلا

بھر گیا دل مرا پچھتاوؤں سے
اشک جو چشمِ خفا سے نکلا


فرحت عباس شاہ

**********************

دل کے اندر جاں سے پیارے کی طرح
غم کو بھی رکھا سہارے کی طرح

مرد کا آنسو تھا کیسی شان سے
آنکھ سے ٹپکا ستارے کی طرح

چپ رہا کرتا ہے میرے سامنے
سرد موسم کے نظارے کی طرح

بہہ نکلتا ہے محبت میں سدا
دل کسی دریا کے دھارے کی طرح

خواب میں اکثر بھٹکتا ہے کوئی
آدمی اک غم کے مارے کی طرح


فرحت عباس شاہ

**********************

اس زمانے نے ہر بار دیوار میں چُن دیا
مجھ کو تھا پیار اور پیار دیوار میں چُن دیا

اپنے اندر میں خود بھی کسی شاہ سے کم نہیں
میں نے بھی اس کا انکار دیوار میں چُن دیا

کس قدر یہ بھی اچھا کیا ہے مرے نام پر
آپ نے میرا گھر بار دیوار میں چُن دیا

اس سے ہوتا ہے اندازہ بستی کے احساس کا
جس طرح میرا اظہار دیوار میں چُن دیا

خود ہی بولو میں کیا سمجھوں جس بے حسی سے مرا
تو نے ہر ایک اقرار دیوار میں چُن دیا


فرحت عباس شاہ

**********************

میں سناتا ہوں کہانی موت کی
میں نے دیکھی ہے جوانی موت کی

سیدھا ہو جاتا ہے دل کے آر پار
ہجر بھی تو ہے نشانی موت کی

باقی سب کچھ دیکھ لیتا ہوں مگر
عشق اور اک ناگہانی موت کی

اور اک شکوہ سلانا ہے وہاں
میں نے اک صف ہے بچھانی موت کی

ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں یہاں
ہر طرف رُت ہے سہانی موت کی


فرحت عباس شاہ

**********************

درد کی لہر ہر مسام تلک
پھیل جات ہے صبح شام تلک

اب کہاں کی محبتیں فرحت 
اس کا رشتہ تھا مجھ سے کام تلک

مجھ کو معلوم ہے رسائی تری
شہر بھر میں ہے میرے نام تلک

پہلے ملتا تھا وہ گلے لگ کر
اب گوارا نہیں سلام تلک

دوسری کوئی بھی نہیں تصویر
تیرے غم سے خیالِ خام تلک

میں بھلا کیوں کروں گِلہ اس کا
چاند آتا ہے میری بام تلک


فرحت عباس شاہ

**********************

بخششِ غم کا فاصلہ ہے بہت
تیرے اس کَم کا فاصلہ ہے بہت

بھیگتا جا رہا ہے ہر منظر
آنکھ کے نم کا فاصلہ ہے بہت

آگ بھی جوش میں ہے اور اس پر
دل کے ماتم کا فاصلہ ہے بہت

تھک سا جاتا ہے آتے جاتے ہوئے
درد سے دَم کا فاصلہ ہے بہت

اس لیے سَر نہیں ہوئی یارو
زُلف کے خم کا فاصلہ ہے بہت


فرحت عباس شاہ

**********************

ایک سے ایک خواب میں یارو
رہ رہا ہوں شباب میں یارو

ڈر گیا ہوں بُرے زمانے سے
چھُپ گیا ہوں کتاب میں یارو

مجھ کو لگتا ہے آپ کی خوشبو 
بس گئی ہے گلاب میںیارو

ساری دنیا کے غم سمائے مرے
درد کے ایک باب میں یارو

اب نہیں کوئی بھی کہ جو فرحت
جا رہے ماہتاب میں یارو

کچھ نہیں سوجھتا غزل کے سوا
عالمِ اضطراب میں یارو

اس کی تصویر کیوں اُبھرتی ہے
آسماں پر سحاب میں یارو


فرحت عباس شاہ

**********************

اَزل اَبد بدنام سہاگن
تنہائی کی شام سہاگن

جیت سکی نہ دل ساجن کا
ہوں کتنی ناکام سہاگن

میں داسی ہوں اپنے پیا کی
نیچ، کنیز، غلام سہاگن

سیج پہ گُل کی بن ساجن کے
کب آیا آرام سہاگن

پریتم ہی ہے سب کچھ تیرا
رب، رحمان اور رام سہاگن

تم نے کیوں دنیا سے چھپ کر
دل سے کیا کلام سہاگن

سدا رہے سیندور سلامت
سکھ پاؤ ہر گام سہاگن


فرحت عباس شاہ

**********************

کوئی انوکھا بھیس بدل
چل جوگی اب دیس بدل

ہجرت بھی بے فائدہ ٹھہری
اب یہ بھی پردیس بدل

نئے سرے سے زخم لگا
پہلے والی ٹھیس بدل

یا مُورت لا اور کوئی
یا اپنا شو کیس بدل

اور کوئی الزام لگا
مجھ پر اپنا کیس بدل

پہن فقیرا قیمتی کپڑے
چادر، چولا، کھیس بدل


فرحت عباس شاہ

**********************

رات ہے اور میں اکیلا ہوں
تیری یادوں کے ساتھ کھیلا ہوں

مِیت ہوں بے قراریوں کا میں
اور تنہائی کا سہیلا ہوں

مجھ کو صحراؤں والی رونقیں ہیں
میں بیابانیوں کا میلہ ہوں

میرے درجات کا تعّیُن کر
دل ہوں اور پورا عشق جھیلا ہوں

کچھ نہیں میں ترے مقابلے میں
کچی مٹی کا ایک ڈھیلا ہوں

جانے کب سوکھ جاؤں اپنے آپ
ہجر کے آنسوؤں کا ریلا ہوں

مجھ سے فطرت کرے گی اور سلوک
میں تو شاعر وں اور سُتیلا ہوں


فرحت عباس شاہ

**********************

یوں سجا غم مری پیشانی پر
جس طرح چاند کوئی پانی پر

خوف آیا تھا مجھے پہلے پہل
اب تو ہنس دیتا ہوں ویرانی پر

ہو گئی ہے مجھے اب عادت سی
غصہ آجاتا ہے آسانی پر

اس لیے کرتا نہیں عقل کی بات
لوگ خوش ہوتے ہیں نادانی پر

اب تو جنگل بھی کئی بار یہاں
رو پڑے حالتِ انسانی پر


فرحت عباس شاہ

**********************

اتنا مرکوز ہوں کہانی پر
چونک جاتا ہوں ہر نشانی پر

میں نہیں چاہتا کہ دنیا کو
رحم آئے مری جوانی پر

میرے بس میں جو ہو تو حیف لکھوں
ظلم اور ظلمتوں کے بانی پر

میں نے اک بار دل لگایا تھا
گھر بنایا تھا ایک پانی پر

جب ترا دل مرے گا فرحت جی
کون روئے گا آنجہانی ہر


فرحت عباس شاہ

**********************

جونہی بستی میں کہیں سے بھی مجھے ڈر آیا
رات بھر خوف کی چوکھٹ پہ بسر کر آیا

ایک احساس کہ لوٹ آیا ہوں غم خانے میں
اور پھر اس پہ یہ لگتا ہے کہ میں گھر آیا

جس قدر ہجر سے بچتا ہوں میں جینے کے لیے
یہ ہمیشہ اسی شدت سے مجھے در آیا

میں کئی بار محبت میں تری جی اٹھا
میں کئی بار جدائی میں تری مَر آیا

میری قربانی بھی دیکھو کہ دکھوں کے بدلے
اپنی خوشیاں تری دہلیز پہ ہوں، دھر آیا

جانے کیونکر مجھے مصلوب کیا جاتا ہے
جانے کیوں نیزے پہ ہر بار مرا سر آیا


فرحت عباس شاہ

**********************

ہر طرف موت کا سامان تو ہے آخر کار
پاس میرے کوئی امکان تو ہے آخر کار

یہ کہ مجھ سا کوئی معمولی اسے جھیل گیا
حادثہ آپ بھی حیران تو ہے آخر کار

ہم کسی وقت بھی پٹڑی سے اتر سکتے ہیں
دل ہمارا ہے، پہ نادان تو ہے آخر کار

مجھ کو کمزور سمجھتے ہوئے روندا سب نے
یہ نہیں سوچا کہ انسان تو ہے آخر کار

اک اسی بات نے گھر کو مرے گھر رکھا ہے
اور کچھ بھی نہیں ویران تو ہے آخر کار

میں جو چاہوں بھی تو کیا دُور رہوں گا تجھ سے
تو مری جان، مری جان تو ہے آخر کار


فرحت عباس شاہ

**********************

اب خدا کا نہیں کچھ لوگوں کا ڈر رکھا ہے
قوم کو چند مسلمانوں نے دَھر رکھا ہے

میری سچائی کسی وقت نہ آلے اُس کو
اُس نے اس واسطے دل میں ابھی شر رکھا ہے

ایک سو دُکھ جو سبھی ساتھ لیے پھرتے ہیں
ایک سودُکھ جو ہر اک شخص نے گھر رکھا ہے

کس کی جرات کہ اڑائے مرے لفظوں کا مذاق
جب خدا نے مرے شعروں میں اثر رکھا ہے

اس سے خوش ہے توخدا اور اسے دے خوشیاں
جس کسی نے مری قسمت میں سفر رکھا ہے


فرحت عباس شاہ

**********************

سجّاد بری کے لیے نظم

بے قراری تری فطرت میں نہ ہوتی
تو سفر ختم تھا کب کا تری بیماری کا
مجھ کو معلوم ہے یارا
تری شریانوں میں اب خون نہیں وحشت ہے
دل لگانا ترا اوہام کی خوشحالی سے
خواب میں خواب بکھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں
درد کے نیزوں کا، کمزور توقع میں ترازو کا عمل
جس طرح تو نے سہا ہے یہ کوئی کیا جانے
جس طرح خدشے ڈراتے ہیں تجھے
جیسے ہر پل تجھے دیوار پہ دے مارتے ہیں
ہم بتائیں بھی کسی کو تو کوئی کیا مانے
تُو سمجھتا ہے کہ دکھڑوں میں توقف
تیرے ویران نصیبوں کا پلٹ جانا ہے
میرے یارا یہ تو بربادی کا سستانا ہے
تجھ سا بے چینی کے دامان میں پلنے والا
کب ہے یک لخت بدلنے والا
تو ہے اک بخت تو ہے بخت بھی ڈھلنے والا
درد کے گوشوں سے دیکھی ہے تری آنکھوں نے
اک سہم کے ساتھ
جس طرح دنیا کے چہروں میں چھُپی بے رحمی
جس طرح شہر میں ڈر ڈر کے اٹھائے ہیں قدم
تیری معصوم تمناؤں کے زخموں پہ رکھوں اپنی دعا کے بوسے
جس طرح تو نے دلاسے لیے تنہائی سے
غیر لوگوں سے پناہیں مانگیں
سائبانوں کے لیے ہاتھ اٹھائے تُو نے
میں ترے ساتھ رہا
تیری بے چینی کے ہاتھوں میں مرا ہاتھ رہا
یہ جو آیا ہے پڑاؤ سا ترے رستے میں
یہ تو آغاز ہے لاچاری کا
بے قراری تری فطرت میں نہ ہوتی
تو سفر ختم تھا کب کا تری بیماری کا
دل لگانا ترا اوہام کی خوشحالی سے
خواب میں خواب بکھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں


فرحت عباس شاہ

**********************

آئے ہیں چلو کچھ تو مرے کام کنارے
میں آج سے کرتا ہوں ترے نام کنارے

بڑھنے نہیں دیتے اسے اک گام کنارے
دریا کے لیے ہوتے ہیں الزام کنارے

دریا سے لگا بیٹھے ہیں دل جب سے دوانے
تب سے انہیں لگتے ہیں در و بام کنارے

اشکوں میں ستاروں کی چمک دیتی ہے پہرا
آنکھوں میں اتر آتے ہیں جب شام کنارے

لہروں کو اگر حَد میں نہ رکھیں گے تو فرحت
کر دوں گا میں آئندہ سے نیلام کنارے


فرحت عباس شاہ

**********************

ساری دنیا سے کٹا ہوتا ہے
جس کا ملبوس پھٹا ہوتا ہے

ہم جو سو کر بھی اٹھیں تو فرحت
جسم دردوں سے اٹا ہوتا ہے

وقت اچھا ہو تو ہر اک پتھر
میرے رستے سے ہٹا ہوتا ہے

وہ مجھے ملتی ہے جب آئندہ
پیار کچھ اور گھٹا ہوتا ہے

بات جب ہوتی ہے یک جہتی کی
شہر کا شہر بٹا ہوتا ہے


فرحت عباس شاہ

**********************

دل مرا مستقل مزاج رہا
عمر بھر غم کا ہی رواج رہا

تیری باتوں پہ اعتماد مجھے
کل رہا ہے کبھی نہ آج رہا

میں شہنشاہ تھا محبت کا
میرے سر پر وفا کا تاج رہا

ہم تو فارغ تھے جیسے اس کے لیے
بس اسے ہی تو کام کاج رہا

ہم بہت پاس پاس تھے لیکن
درمیاں میں مگر سماج رہا


فرحت عباس شاہ

**********************

جاگنا رات بھر اداسی میں
اور کرنا سفر اداسی میں

شام ہوتے ہی جانے کیوں میرا
ڈوب جاتا ہے گھر اداسی میں

چھوڑو ایسی بھی کوئی بات نہیں
کوئی جاتا ہے مر اداسی میں

روزکے روز پینے والوں پر
مختلف تھا اثر اداسی میں

جانے کیا بات دل میں ہوتی ہے
کھلا رہتا ہے در اداسی میں

پھر تمہیں فون کی اجازت ہے
یاد آؤں اگر اداسی میں

اس نے بھی جان بوجھ کر اپنی
مجھ کو دی ہے خبر اداسی میں

میں تو رہتا ہوں بے نیاز بہت
اس کو لگتا ہے ڈر اداسی میں

لگنے لگتے ہیں مجھ کو تم جیسے
سارے شمس و قمر اداسی میں


فرحت عباس شاہ

**********************

محبت کو بچانا چاہتا ہوں
میں ایسا گیت گانا چاہتا ہوں

مجھے محدود کرتا ہے زمانہ
مگر میں آنا جانا چاہتا ہوں

مری بس ایک ہی حسرت ہے اب تو
میں اک سپنا سُہانا چاہتا ہوں

مجھے ہر دوسرا کہتا ہے آکر
دیے کی لَو بجھانا چاہتا ہوں

نکلنا چاہتا ہوں دیپ بن کر
ہوا کو آزمانا چاہتا ہوں


فرحت عباس شاہ

**********************

ایک بھی دل ہے گر ابھی زندہ
ہو ہی جائیں گے ہم سبھی زندہ

ویسے تو قوم ساری مُردہ ہے
پر لگی ہے کبھی کبھی زندہ

میں نے مرنے نہیں دیا غم کو
میرا دل بھی تو ہے جبھی زندہ

ہے تری یاد بھی عجیب بہت
کبھی مردہ ہے اور کبھی زندہ

اس کے دل میں خدا کا ڈر شاید
بس ہوا ہے ابھی ابھی زندہ


فرحت عباس شاہ

**********************

کسی بارے نہیں ہوا معلوم
اب کہاں ہے کوئی خدا معلوم

زندگی مخمصہ ہے جینے کا
سانس ہے گمشدہ ہوا معلوم

اس کو بھی مجھ سے عشق تھا فرحت
مجھ کو اب آ کے یہ ہوا معلوم

یہ خبر ہے مرے لیے فرحت
آپ کو بھی ہے کچھ وفا معلوم

جن کے دل صاف ہیں نہ آنکھیں ہیں
ان کے بارے میں مجھ کو کیا معلوم

زندگی کس طرح گزارتے ہیں
پہلے پہلے مجھے یہ تھا معلوم

آج جو اتنا کھویا کھویا ہے
ہو رہا ہے مجھے خفا معلوم


فرحت عباس شاہ

**********************

تم نے گھولا ہے کیا ہواؤں میں
رنج ہی رنج ہے فضاؤں میں

آج تو یوں گزر رہی ہے صبا
جیسے پازیب سی ہو پاؤں میں

ایک دو کچے راستوں کے سوا
اب مرا کچھ نہیں ہے گاؤں میں

میں ستارہ نہیں ہوں پتھر ہوں
ڈھونڈنا چھوڑ دو خلاؤں میں

اب مری ماں نہیں مرے سر پر
اب وہ ٹھنڈک نہیں ہے چھاؤں میں

اتنی جلدی بچھڑ گئے ہو تم
جا بسے ہو کہیں خلاؤں میں

کیا کوئی غم سنائی دیتا ہے
تم کو گزری ہوئی صداؤں میں


فرحت عباس شاہ

**********************

تیرے اور موسمِ بہار کے بیچ
پھنس گیا ہوں میں خار زار کے بیچ

لاش رکھ دی ہے کس نے فرحت کی
عین اس شہرِ بے قرار کے بیچ

اس نے آنا نہیں مگر پھر بھی
گھِر گئی روح انتظار کے بیچ

کوئی پڑھ پڑھ کے مجھ پہ پھونکتا ہے
آگیا ہوں کسی حصار کے بیچ

اب کوئی گرمیِ وصال کہاں
جم گیا ہجر برف زار کے بیچ

لے گئے نام لکھ کے سچوں کا
آگئے ہم بھی اشتہار کے بیچ


فرحت عباس شاہ

**********************

شام اک سانولی سہیلی ہے
یہ مرے غم کے ساتھ کھیلی ہے

جس میں بس اک تری سکونت ہے
یہ مری ذات اک حویلی ہے

وہ بھی آیا ہے کیسی سج دھج سے
رات بھی کیا نئی نویلی ہے

تم تو اک غم سے ڈر گئے فرحت
ہم نے تو عمر یونہی جھیلی ہے

خشک پتے کا کون ہے یارو
دشت بھی آندھیوں کا بیلی ہے


فرحت عباس شاہ

**********************

تیری ہر چال کاٹ سکتا ہوں
میں ترا جال کاٹ سکتا ہوں

بات کرتی ہو ایک لمحے کی
درد کے سال کاٹ سکتا ہوں

زندگی بخش دے وہ جیسی بھی
حال بے حال کاٹ سکتا ہوں

اتنا سیراب ہوں میں اندر سے
عمر بھر کال کاٹ سکتا ہوں

ایک آنسو کی روشنی سے میں
رات کا تھال کاٹ سکتا ہوں

کس طرح کہہ دیا ہے تو نے مجھے
پھول کی ڈال کاٹ سکتا ہوں


فرحت عباس شاہ

**********************

اب کئی بار سوچتا ہوں میں
آپ کے ساتھ بھی رہا ہوں میں

کس قدر خوشگوار رشتہ ہے
آپ ہیں پھول اور صبا ہوں میں

تم کو دل سے بھُلا کے لگتا ہے
جیسے بے انت اک خلا ہوں میں

راستہ انتہائی مشکل تھا
اور بہت دور تک چلا ہوں میں

اک تو بے آسرا ہوں اور اس پر
اپنی کشتی کا ناخدا ہوں میں

تو سمندر ہے میں پرندہ ہوں
تو ہے جنگل تو پھر ہوا ہوں میں

میں نے سننا نہیں ہے اب کچھ بھی
میں نے جب کہہ دیا خفا ہوں میں

کس طرح سے ہیں لازم و ملزوم
رات ہیں آپ اور دیا ہوں میں

کتنے جھوٹے تھے آپ کہتے تھے
اک فقط پیکرِ وفا ہوں میں

اس طرح شہر میں ہوں فرحت جی
جس  طرح دشت میں صدا ہوں میں


فرحت عباس شاہ

**********************

کر تو سکتے ہو تم مگر نہ کرو
رات ہے رات میں سفر نہ کرو

اشک رہنے دو میرے شاملِ حال
میرے شعروں کو بے اثر نہ کرو

مت بسو میرے دل میں فرحت جی
اتنے ویران گھر میں گھر نہ کرو

جیسے بیگار ہو کوئی یارو
زندگی اس طرح بسر نہ کرو

ہے تعلق تو پھر تعلق ہے
درمیاں میں اگر مگر نہ کرو

دل پہ مت لو ہر ایک بات کا بوجھ
آنکھ بے وجہ اپنی تر نہ کرو

یہ بھی کردار ہے کہ بات کوئی
ہے ادھر کی تو پھر ادھر نہ کرو

میری عزت کرو دیانت سے
اس میں شامل کوئی بھی ڈر نہ کرو

میں ابھی پاک صاف ہوں یارو
میری جانب بُری نظر نہ کرو

اچھے لگتے ہو بات کرتے ہوئے
بات کو اتنا مختصر نہ کرو


فرحت عباس شاہ

**********************

ایک تو دل بھی ہے اداس بہت
اس پہ موسم ہے ناشناس بہت

ہم کو ویرانیوں میں رہنے دو
ہم کو ویرانیاں ہیں راس بہت

جانے کیا ہے کہ سُو کھے پھولوں کی
رَچ گئی ہے بدن میں باس بہت

پھول بھی کم ہیں، لوگ بھی کم ہیں
آج کل صحن میں ہے گھاس بہت

میں نے پوچھا کہ تشنگی کیا ہے
اس نے فوراً کہا کہ پیاس بہت


فرحت عباس شاہ

**********************

سوچتا ہوں کہ مری ذات کبھی
ہو بھی سکتی ہے کائنات کبھی

اب تو معمول ہے یہاں فرحت
پہلے ہوتے تھے حادثات کبھی

جانتا ہوں مجھے محبت ہے
مل نہ پائے گی اب نجات کبھی

دے رہے ہو تسلیاں مجھ کو
تم نے دیکھی ہیں مشکلات کبھی

اس نے رکھی ہے آج تک دل میں
میں نے کی ہو گی کوئی بات کبھی

جنگ سے پہلے سوچ لینا تھا
میں نے کھائی نہیں ہے مات کبھی

پیار میں جو ہوا ہے میرے ساتھ
ایسا ہو جائے تیرے ساتھ کبھی

اے مرے مولا میں بھی شاعر ہوں
بخش مجھ کو بھی کوئی نعت کبھی

جب مرے دل پہ بوجھ کم ہو گا
آئے گی اس طرح کی رات کبھی

اب مری داستان سنتا ہے
جس کو چبھتی تھی میری بات کبھی

روز گھبرا کے سوچتا ہوں میں
ختم ہو عرصہء حیات کبھی


فرحت عباس شاہ

**********************

ایک سپنے میں کھو گیا تھا میں
ہجر کے ساتھ سو گیا تھا میں

یاد ہے گھر پہ جب نہیں تھا تُو
تیری بستی میں کھو گیا تھا میں

اپنی جاں سونپ کر محبت کو
سارے الزام دھو گیا تھا میں

جب کوئی خار بھی اُگاتا نہ تھا 
شعر ہی شعر بو گیا تھا میں

اپنے پچھلے جنم میں بھی فرحت 
آپ کا ہی تو ہو گیا تھا میں


فرحت عباس شاہ

**********************

مشکلوں سے میں جب گزرتا ہوں
ایک بس تیرے دکھ سے ڈرتا ہوں

تیرے بن اپنی بے قراری پر
ایک سے ایک وار کرتا ہوں

اس کی آواز میں ہمیشہ میں
اپنی غزلوں کے رنگ بھرتا ہوں

روز جیتا ہوں ایک موت میں مَیں
روز اک زندگی میں مرتا ہوں

ٹُوٹ جاتا ہوں جب بھی اندر سے
خاک پر دُور تک بکھرتا ہوں


فرحت عباس شاہ

**********************

شہر بھر ہے مرے خیال میں گم
اور میں ہوں کہ بس ملال میں گم

کتنے آرام سے کیے تُو نے
میرے سو سال ایک سال میں گم

اور لب تھے کپکپاتے رہے
اس کی آنکھیں رہیں سوال میں گم

ایک شاعر ہوں اور میں ہوں مولا
عمر بھر سے ترے جمال میں گم

سب سے دلچست بات یہ ہے کہ اب
قوم کی قوم ہے زوال میں گم


فرحت عباس شاہ

**********************

جیتتے ہیں یا ہارتے ہیں ہم
زندگی تو گزارتے ہیں ہم

کتنے مجبور "فِیل"  کرتے ہیں
جب کسی کو پکارتے ہیں ہم

کچھ بگاڑا نہیں کسی کا بھی
اپنے ہی دل کو مارتے ہیں ہم

اور سجاتے ہیں تیرے ماتھے پر
اک ستارہ اتارتے ہیں ہم

اور پھرتے ہیں تیری گلیوں میں
آج اک روپ دھارتے ہیں ہم


فرحت عباس شاہ

**********************

میں تمہیں سوچ کے خاموش رہوں 

تم مجھے سوچ کے خاموش رہو
میں تمہیں سوچ کے خاموش رہوں
یہ عجب رشتہ ہے خاموشی کا
اک دن آئے گا
چُپ چاپ بچھڑ جائیں گے
اپنی خاموشی کے ہاتھوں ہی اُجڑ جائیں گے


فرحت عباس شاہ

**********************

دل میں خواہش کی طرح رہتے ہو

دل میں خواہش کی طرح رہتے ہو
اور خواہش بھی مقدس کوئی
تم نے لالچ سے بھری دنیا میں
میرے غم خانے کو پاکیزہ بنا رکھا ہے
میرے خوابوں کو سجا رکھا ہے
مجھ کو سینے سے لگا رکھا ہے


فرحت عباس شاہ

**********************

آپ کی شال میں اداس رہے
ہم تو ہر حال میں اداس رہے

اس نے پھینکا تھا ہم پہ پیار کا جال
پیار کے جال میں اداس رہے

عشق میں ٹھیک گزرا پہلا سال
دوسرے سال میں اداس رہے

ہم جو غیروں میں تھے بہت خوش باش
شہرِ لجپال میں اداس رہے

روح میں تھے تو ٹھیک تھے فرحت
پر خَدو خال میں اداس رہے


فرحت عباس شاہ

**********************

ایک غمزدہ خوشی

تمہاری موت کے دکھ سے بڑا دکھ
اگر کوئی ہے تو مرے علم میں نہیں
مگر یہ ایک خوشی بھی ہے
تم اب نہیں ہو اور اب میں اپنے دکھوں میں آزاد ہوں
میرے آنسوؤں کے نیچے دبے ہوئے تمہارے زخمی دل کی نازک ہتھیلیاں
اور تمہاری غمزدہ دعاؤں کی پکاریں
میری روح کو کرب کی مٹھیوں میں جکڑ نہیں لیں گی
اب چاہے کچھ بھی ہو
چاہے میرے دل پر غموں کے پہاڑ ہی کیوں نہ توٹ پڑیں
اب تم نہیں ہو
اور میں اپنے دکھوں میں آزاد ہوں


فرحت عباس شاہ

**********************

آکسیجن ہو گھر میں کم شاید
ڈوب جائے ہمارا دَم شاید

اس لیے اس کو کچھ بتاتا نہیں
آنکھ ہو جائے اس کی نم شاید

اس کی حالت سے لگ رہا اُسے
لگ گیا ہے کسی کاغم شاید

اس کی تصویر دیکھ لیتا ہوں
اس طرح اشک جائیں تھم شاید

ڈوبتی دھڑکنوں سے لگتا ہے
خون دل میں گیا ہے جم شاید

اسی اُمید پر ہے دل قائم
چھوڑ دے وہ کبھی ستم شاید


فرحت عباس شاہ

**********************

آپ نے آج تو کمال کیا
ہم غریبوں کا کچھ خیال کیا

اپنی بس اک نگاہِ الفت سے
میرے جیسوں کو مالا مال کیا

میرے دکھ کے مقابلے میں کیوں
تم نے اک غیر کا ملال کیا

میں نے پوچھا کہ میرے کون ہو تم
اس نے الٹا مجھے سوال کیا

پہلے دھڑکن درست کی میں نے
اور پھر سانس کو بحال کیا

عمر بھر سو نہیں سکا فرحت
غم نے میرا عجیب حال کیا

بس خبردار جو کبھی تم نے
شام کے بعد مجھ کو "کال" کیا

یہی لکھا تھا اپنی قسمت میں
عمر بھر ہجر سے وصال کیا


فرحت عباس شاہ

**********************

ہم نے کچھ روز میں مر جانا ہے

ہم نے کچھ روز میں مر جانا ہے
ہم تو مہمان ہیں
اور لوٹ کے گھر جانا ہے
بے بسی یہ ہے
کہ مرضی سے نہ آئے نہ گئے
زندگی کیا ہے اذیت کا مسافر ہے کوئی
جس کو ہر گام پہ ڈر جانا ہے
قافلہ ہے کوئی مجبوروں کا
ہر پڑاؤ پہ بکھر جانا ہے
آنسوؤں کا کوئی دریا ہے جسے
چند لمحوں میں اُتر جانا ہے


فرحت عباس شاہ

**********************

جب تک برباد نہیں رہتا
کوئی فرہاد نہیں رہتا

جو گر جاتا ہے نظروں سے
وہ مجھ کو یاد نہیں رہتا

جب دل سے اُتر جاتا ہے کوئی
یہ گھر آباد نہیں رہتا

اب صبر مجھے آجاتا ہے
اب جی ناشاد نہیں رہتا

جیون بھی تو اک پنجرہ ہے
پنچھی آزاد نہیں رہتا

کچھ بھی ہو زیادہ دیر کبھی
یہ دل برباد نہیں رہتا


فرحت عباس شاہ

**********************

سونے لگتا ہوں میں جب بھی رات کو
یاد کرتا ہوں تری ہر بات کو

لوگ رکھتے ہیں تعلق بیشتر
سامنے رکھ کر مرے حالات کو

آنسوؤں کے سامنے کچھ بھی نہیں
آزمایا ہے بہت برسات کو

میں نے تو اک سامنے کی بات کی
اور وہ رونے لگا حالات کو

غم بھی کوئی بھولنے کی چیز ہے
ساتھ رکھتا ہوں تری سوغات کو

ایسے لگتا ہے نگر کی دھوپ نے
روند ڈالا ہے مرے باغات کو

اَلمیہ میرا نہیں دنیا کا ہے
جو نہیں سمجھی ہے میری ذات کو

دیکھنا کیسے مہکتی ہے فضا
پھیل جانے دو مرے نغمات کو


فرحت عباس شاہ

**********************

میں نے ویران تمنا کا سفر دیکھا ہے

کس نے ویران تمنا کا سفر دیکھا
عمر بھر اجڑے ہوئے لوگوں کی آنکھوں میں جلا کرتی ہے
عمر بھر بین کیا کرتی ہے
آخری رات بجھائی ہوئی بتیوں کی طرح
جس طرح بیتی ہوئی موت کی ویرانی ہو
دل سے جاتی ہی نہیں
بوجھ ہٹاتی ہی نہیں
میں نے ویران تمنا کا سفر دیکھا ہے


فرحت عباس شاہ

**********************

کھلونوں کی کرچیاں

محبت نے کبھی مجھے تمہاری راہ سے ہٹنے نہیں دیا
میں جب اپنا آخری کھلونا ٹوٹ جانے کے غم میں
تمہیں دیکھنے سے گریز کی سڑک پر
عین درمیان میں بھاگ رہا تھا
میں عجیب تھا
اور میں نے اپنے کسی پُرانے زخم سے ٹھوکر کھائی تھی
میرے تمام کے تمام نئے زخم منہ کے بل گرے
بے اختیار میرے منہ سے تمہارا نام نکلا
لیکن میں کبھی تمہیں بدعا نہیں دے سکا
شاید میں تم سے محبت کرتا رہوں گا
چاہے میرے درد ہر بار مجھے بے سہارا کر کے
تمہاری محبت کی راہ پر پھر سے کیوں نہ چھوڑ جائیں
میرے پاس اب کھلونے نہیں ہیں
بس کرچیاں ہی کرچیاں ہیں
جو میری پوروں اور آنکھوں میں چُبھتی رہتی ہیں
کرچیاں چُبھتی رہتی ہیں
اور میں تمہاری محبت کی راہ پر چلتا رہتا ہوں


فرحت عباس شاہ

**********************

ہم نے اک بار کہا

ہم نے اک روز ہوا سے یہ کہا
رُک جاؤ
اور وہ دھیرے سے ہنسی۔۔۔۔ طنز سے بھر پور ہنسی
ہم نے اک بار کہا سورج سے
شام کے بعد کبھی اترو ہمارے گھر میں
اور۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔خاموش رہا
ہم نے اک بار نگر والوں سے پوچھا
کہ کہاں جاتے ہو؟ وہ لگے دیکھنے اک دُوجے کو
ہم نے اک بار کہا خود سے
کہ اب چھوڑو بھی
درد کی دھار پہ چلنے کی رَوِش چھوڑو بھی۔۔۔۔ چھوڑو بھی
ہم نے ہر بار کہا خود سے
کہ اب چھوڑو بھی


فرحت عباس شاہ

**********************

ہجر کا چاند

درمیانی کسی ویرانی میں اُترا ہے ترے ہجر کا چاند
پار لگنے کا گلہ کیا کرنا
آنکھ اک درد سے ہٹتی ہے تو کتنے ہی نظر آتے ہیں
پاک دامن مری چاہت
کسی جنگل کو نکل جاتی تو اچھا ہوتا
جھاڑیاں اتنی بھی بے رحم نہیں ہوتیں
کہ روحوں پہ خراشیں ڈالیں
درمیانی کسی ویرانی میں اٹکا ہوا دل 
لڑکھڑاتی ہوئی سانسوں سے دھکیلا نہ گیا
درمیانی کوئی ویرانی مخالف ہے مری
دیکھنا یہ ہے کہ اب روح کہاں جاتی ہے
ہجر کا چاند تو ویسے بھی جنازوں پہ سجا کرتا ہے


فرحت عباس شاہ

**********************

کانٹے ہی کانٹے

میں موت سے انتہائی نفرت کرتا ہوں
میں اسے ہنسی خوشی کبھی بھی قبول نہیں کروں گا
اس نے میری ماں کو اذیت دی
اور میرے باپ کو لاعلمی میں آلیا
میں موت سے انتہائی نفرت کرتا ہوں
یہ اور بات کہ زندگی سے بھی
میرا تعلق کسی خوشی کی بنیاد پر نہیں
میں غم اور رائیگانی کے درمیان گھِرا ہوا 
ایسا درخت ہوں
جس پر بہار میں زخموں کے پھول
اور موت کی رُت میں
کانٹے ہی کانٹے اُگ آتے ہیں


فرحت عباس شاہ

**********************
اختتام
**********************
فرحت عباس شاہ
**********************

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔