اداس شامیں اجاڑ رستے


کتاب : اُداس شامیں اُجاڑ رستے
شاعر : فرحت عباس شاہ
کمپوزر : زین شکیل


**********************

اُداس شامیں اُجاڑ رستے کبھی بلائیں تو لوٹ آنا
کسی کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب آئیں تو لوٹ آنا
فرحت عباس شاہ

**********************

روشنی 

کوئی تم سے ہی تو نہیں تھی
کہ دن آدھا رہ جاتا

فرحت عباس شاہ

**********************

دفاع

آزادی آزادی ہی ہوتی ہے
چاہے غلامی کے شک سے ہی کیوں نہ بندھی ہو

فرحت عباس شاہ

**********************

جراتِ غم کا خوف بھی تو تھا
جانے دل کو سزا ملے کیسی

عمر بے سائبانیوں میں کٹی
دھوپ سے زرد ہو گیا جیون

ڈس گیا ہجر دل کو ساون میں
درد سے رنگ پڑ گیا نیلا

تم تو ٹیلے نہ ہو سکے ثابت
ہم نے سمجھا پہاڑ راہ میں ہے

اشک سنولا گئے سدا کے لیے
شام آنکھوں میں آ کے بیتھ گئی

فرحت عباس شاہ

**********************

کاروبار

مجھے پتہ ہے 
تم میری بہت ساری سوچیں
اور خواب
بہت پہلے ہی سے کام میں لے آتے ہو
تا کہ انہیں اپنے سرکل میں رکھو
اور خاطر خواہ طریقے سے استعمال کر سکو

فرحت عباس شاہ

**********************

دکھی

اپنی اپنی مدت پوری کرنے والے
بہت ساری مدتیں پوری کرنا چاہتے ہیں
اور اپنی آدھی کھو بیٹھتے ہیں
اور دکھی ہو جاتے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

باتیں

میں ہر رات سونے سے پہلے
بہت ساری باتیں
لپیٹ کے تکیے کے نیچے رکھ دیتا ہوں
اور خوابوں میں
انہیں دوسروں کے تکیوں کے نیچے
تلاش کرتا ہوں

فرحت عباس شاہ

**********************

میں سفر پر تھا جب سمندر کے
وہ مرے ساتھ تھا ہوا کی طرح

المیہ ہے کہ سطح غم پہ کہیں
شہر کا مجھ سے رابطہ ہی نہیں

گر گئی ہے کتاب ہاتھوں سے
کوئی تو مجھ کو یاد کرتا ہے

اور اس کے سوا نہیں کچھ بھی
زندگی موت کا بہانہ ہے

ایک کمرہ ہے درد کا جس میں
کوئی میرے سوا نہیں رہتا

فرحت عباس شاہ

**********************

آس پاس

وہ رات عام راتوں سے زیادہ تاریک
اور زیادہ گہری
اور زیادہ خاموش
اور زیادہ تنہا ہوتی ہے
جب تم زیادہ اور زیادہ اور زیادہ
آس پاس نہیں ہوتے

فرحت عباس شاہ

**********************

تلخی

آنکھیں تلخیوں سے بھری ہوئی پیالیاں یں
دل کوئی دکھا ہوا زخم
آتی جاتی ہوئی سانس 
دل کو چھیل کر گزرتی ہے
پیالیاں اور زیادہ بھر جاتی ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

تم

دل کی دہلیز سے لگی ویرانی
اور ویرانی کی دہلیز سے لگی بیٹھی جدائی
اور جدائی کی دہلیز سے لگی بیٹھی محبت
اور محبت کی دہلیز سے لگی بیٹھی کائنات

فرحت عباس شاہ

**********************

وہ آنکھیں جو تمہاری منتظر تھیں
بڑی مدت ہوئی پتھرا گئی ہیں

کنارے لگ گیا ہے خامشی سے
محبت میں بھی دل چالاک نکلا

تمہاری راہ پر پیڑوں کی صورت
اگاتا پھر رہا ہوں بندگانی

کسی کا خواب آنکھوں میں نہیں ہے
وگرنہ نیند ہم کو آ ہی جاتی

ہماری ہی طرح کے لوگ کتنے
غموں کو پشت پر لادے ہوئے ہیں

تمہارے چیتھڑے تم کو بتاتے
تمہیں کتنا بچایا ہے جہاں سے

فرحت عباس شاہ

**********************

تسکین

مجھے تمہارے لیے دربدر بھٹکنا اچھا لگتا ہے
میری تسکین ہوتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

رتجگہ

ایسے سوتے جاگتے
اٹھتے بیٹھتے
اور تڑپتے رہنا تھا
تو دن سے بچھڑے ہی نہ ہوتے

فرحت عباس شاہ

**********************

ہار

چلو محبت میں جیتنا جیتنا کھیلتے ہیں
اور نفرت میں ہارنا، ہارنا
حالانکہ مجھے پتہ ہے
تم محبت میں ہار جاؤ گے
اور میں نفرت میں 
لیکن پھر بھی ایک بار کھیل، کھیل لینے میں حرج ہی کیا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

ہم نے بھی ساری زندگی تیرے
آسمانوں تلے نہیں رہنا

یہ گھٹن جو ہمارے اندر ہے
ایک دن توڑ دے گی دیواریں

درد کا اعتراف کیا کرتا
منکشف ہی نہیں ہوا اس پر

اک ذرا اختیار بھی تو دے
اے مرے اعتبار کے مالک

سوچ کی سیاہ بختیاں دیکھو
دائروں سے نکل نہیں سکتی

فرحت عباس شاہ

**********************

حواس

میں محبت کو چوم سکتا ہوں
اور نفرت کو چھو کے دیکھ سکتا ہوں
یہ الگ کہ ہاتھ بھی لگانا پسند نہ کرو
میں بے وفائی محسوس کرسکتا ہوں
چاہے کتنی بھی معمولی کیوں نہ ہو
یہ الگ کہ تمہیں بتاؤں یا نہ بتاؤں

فرحت عباس شاہ

**********************

پرچھائیاں

یادوں کی کتنی پرچھائیاں ہو سکتی ہیں
روح کے پردوں پر ہنستی گاتی
اور لہرا لہرا کر ناچتی ہوئی پرچھائیاں
منہ بسورتی کٹ کٹ کرتی پرچھائیاں
مضمحل، تھکی ہوئی، مست اور اداس پرچھائیاں
پژمردہ اور سوگوار
اور زارو قطار روتی ہوئی
غصے سے بھری ہوئی
چیختی چلاتی پرچھائیاں
یادوں کی بہت ساری پرچھائیاں ہو سکتی ہیں
جو میں نے ایک ایک کر کے بتائی ہیں
میری روح پر تمہاری یادوں کی بہت ساری پرچھائیاں 
باری باری بیت گئی ہیں
اور اب بس مری ہوئی پرچھائیوں سے پہلے
کچھ گم سم اور چپ چاپ
اور بیمار پرچھائیاں رہ گئی ہیں
روح کے پردوں کو کسی غمزدہ دیمک کی طرح چاٹتی ہوئی
اور سلگا سلگا کے راکھ کرتی ہوئی

فرحت عباس شاہ

**********************

مستقل روگ میں ہے
دل ترے سوگ میں ہے

تیرے بن جیون بھی
راستہ بھول گیا

ہر کوئی پھرتا ہے
خود سے اکتایا ہوا

رات بھی سہمی ہوئی
دن بھی گھبرایا ہوا

تم بھی ٹھکرائے ہوئے
میں بھی ٹھکرایا ہوا

آج تو جھیل لیا
کل سے ڈر لگتا ہے

اب تو ویرانہ بھی
اپنا گھر لگتا ہے

عشق کی بازی میں
اب بھی سر لگتا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

وجہ

بہت ساری وجوہات کے باوجود
دکھ کی کوئی وجہ نہیں ہوتی
کیا انسان کی کوئی وجہ ہوتی ہے
خدا کا کیا سبب ہو سکتا ہے
زندگی اور موت کا باعث کیا ہے
میں کئی بار رویا ہوں
کئی بار ہنسا ہوں
لیکن پھر بھی خوشی اتنی قدیم نہیں
جتنا قدیم دکھ ہے
تمہیں یاد ہے
تمہارے اور میرے درمیان ایک تعلق پیدا ہو گیا تھا
جس کا باعث کوئی دکھ تھا
لیکن شاید تمہیں یاد نہ آ سکے
اس دکھ کا باعث کیا تھا
خدا نے جس دکھ کے باعث ہمیں تخلیق کیا ہے
ہو سکتا ہے خدا کو یاد ہو
خدا اتنا بھلکّڑ نہیں ہے
وہ کچھ بھی نہیں بھولتا اگر خود نہ چاہے
خدا سے کسی دن پوچھنا جس دکھ کے باعث
کائنات تخلیق کی جاتی ہے
اس دکھ کا باعث کیا ہے
ورنہ میں نے تو کہا ہے دکھ کی کوئی وجہ نہیں ہوتی

فرحت عباس شاہ

**********************

ناراض

رات ہم سے دیر دیر تک ناراض رہتی ہے
ہمیں غصہ آتا ہے
بہت سہارتے ہیں تو جنجھلا جاتے ہیں
اور بے بسی سے روہانسے ہو جاتے ہیں
اور آنسوؤں سے لبا لب بھرے ہوئے کٹوروں کے باوجود
ہنس دیتے ہیں
جیسے کسی نے عمر قید کاٹنے والے کسی کو
ہنسنے کی بیگار پر لگا دیا ہو
رات ہم سے دیر تک باراض رہتی ہے
اور ہمارے سینے پر
بھاری بھرکم سوچیں لا دھرتی ہے
اور ذار دور کھڑی ہو کر
ہمارے طرف نوکیلے اور سخت خدشے اچھالتی ہے
اچھالتی کیا ہے زور سے دے مارتی ہے
ہمارے آنسوؤں کو اندر سے ہمارے دل سے باندھ دیتی ہے
سانسوں کی بھیگی ہوئی رسیاں کستی چلی جاتی ہے
رسیاں بار بار کھینچتی ہیں
دل بار بار ڈوبتا ہے
دل بار بار ڈوبتا ہے رات پھر بھی ہم سے ناراض رہتی ہے
رات ہم سے دیر دیر تک ناراض رہتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

زندگی کے اجاڑ رستوں پر
وحشتوں کی اجارہ داری ہے

زندگی آپ کی سہی لیکن
موت بھی کون سی ہماری ہے

وقت اک کھیل تھا کہ جو شاید
تم نے جیتا ہے ہم نے ہارا ہے

صبر کی آہنی فصیلوں سے
درد ٹکرا کے پاش پاش ہوا

یہ مری دھڑکنوں کی لے کاری
بے صدا موسموں کی بخشش ہے

کون جانے قبول ہوتا ہے
بندگی اک طرح سے جوا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

لباس

آج تو جیسے تیسے وقت گزر گیا
کل پھر رات اور زیادہ سیاہ ہو جائے گی
دن اور زیادہ مشکل ہو جائے گا
شام کی ویرانی مزید بڑھ جائے گی
صبح کی اجنبیت کم نہیں ہوگی
پتہ نہیں میرے اس لباس کا کیا ہوگا
جسے میں نے ہمیشہ ایسے موسموں سے بچایا ہے
جو روح پر زخم لگانے آتے ہیں
ایک دن جب شہر کی بیابانی اچانک مجھ پر جھپٹ پڑی تھی
میرا وہ لباس کئی جگہوں سے پھٹ گیا تھا
حالانکہ ایسی موقعوں پر زندگی، دریدہ زندگی
کہلانا پسند نہیں کرتی
بلکہ کوئی بھی پسند نہیں کرتا
میں تو پھر مشکل دن اور گہری سیاہ رات میں گھرا ہوا
ایک ایسا شخص ہوں
جس کے پاس مشکل اوقات میں پہننے کے لیے
ایک ہی لباس ہے
ایک ادھڑا ہوا لباس

فرحت عباس شاہ

**********************

آدھی خوشیاں

تم نے مجھے کہا تھا
تم میرے دوست ہو
پکے اور مخلص دوست
لیکن تم اور بھی بہت سارے لوگوں کے دوست تھے
پکے اور مخلص دوست
تم نے مجھے کہا تھا
تم مجھ سے محبت کرتے ہو
سچی اور گہری محبت
لیکن تم بہت سے دوسرے لوگوں سے بھی محبت کرتے تھے
سچی اور گہری محبت
میں نے چاہا تھا 
تم میرے ہوجاؤ
میرے اپنے
سارے اور مکمل
لیکن تم نے مجھے ہمیشہ آدھے غم دیے ہیں
اور کوئی کیا جانے
آدھے غم مکمل غموں سے کہیں زیادہ غمزدہ کر دینے والے ہوتے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

تنہائی بھی کتنا اچھا موسم ہے
ایک جہان چمٹ آتا ہے سینے میں

برساتوں کے آتے آتے بستی میں
دل کے دریا آنکھوں تک آ پہنچے ہیں

دکھ کی یکسانیت سے تو لگتا ہے
جیسے ایک ہی رات پلٹ کر آتی ہو

بہلاوے تو لاکھوں تھے لیکن یہ دل
چکنی مچھلی بن بن ہاتھ سے پھسل گیا

دل کی بستی تہس نہس کر دینے والا
معصومیت سے کہتا ہے کیسے ہو

فرحت عباس شاہ

**********************

پر

میرے کندھوں پر اگے ہوئے پروں جیسے خواب
میں نے سوچا تھا
یا شاید سوچا نہیں تھا بس خواہش کی تھی
میں اڑ کر تمہارے پاس آجاؤں گا
میرے پر
میرے خواب مجھے اڑا کر تمہارے پاس لے آئیں گے
اور میں کبھی کبھی بہت پیار میں آکر
تمہیں اپنے ان پروں میں چھپا لیا کروں گا
اور تمہیں اپنے اندر
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بسا لیا کروں گا
لیکن اب
میرے کندھوں پر اگ آنے والے زخم۔۔۔۔
اور آنکھوں میں جم جانے والی برف۔۔۔۔
میں سوچتا ہوں
میں ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہوں
اور خواہش کرتا رہتا ہوں

فرحت عباس شاہ

**********************

محبت

ٹھیک ہے
کبھی کبھی 
کوئی محبت ایسی بھی ہوتی ہے
لیکن پھر بھی
کم از کم پھر بھی
میرے اندر تمہارے لیے ایک باپ زندہ ہونا چاہئیے تھا
اب میرے اندر
تمہارے لیے ایک ماں زندہ ہو گئی ہے
اب میں تمہاری محبت میں
جی ہاں بس تمہارے لیے
بہت زیادہ دلیر اور دعا گو ہوں
اور زیادہ بے بس اور مجبور بھی ہوں
لیکن پھر بھی
کم از کم پھر بھی
کوئی کوئی محبت ایسی بھی ہوتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

بارش

تمہارے ساتھ بتائی ہوئی بارش
اور وہ بھی جو تمہارے بغیر بیت گئیں
میرے اندر برستی رہتی ہیں
مسلسل اور مستقل
میرے اندر بہت ساری آرزوؤں کے در و دیوار
اور سپنوں کے محل مسمار ہوتے جارہے ہیں
وہ پیڑ جو پہلے دھل گئے تھے
اب مرجھاتے جا رہے ہیں
بہت سارے ایسے راستے بند ہو چکے ہیں
جن پر کبھی کوئی جگنو اور کوئی تتلی
تمہاری طرف سے میری طرف
یا میری طرف سے تمہاری طرف
آتے جاتے تھے
مجھے پتہ ہے میری بنیادوں میں رفتہ رفتہ
پانی اترتا جا رہا ہے
نہ جانے تمہیں پتہ ہے کہ نہیں
تمہیں یاد ہے بارش ہمیں بہت رلایا کرتی تھی
کھڑکیوں کے شیشوں سے ایک دوسرے کو دھکا دے کر
نیچے پھسلائے ہوئے قطرے
اور رخساروں پر لکیریں کھینچتے ہوئے آنسو
اور ہم دونوں کے درمیان ایک بھیگی ہوئی خاموشی
یہ سب کچھ بیک وقت ہو جاتا تھا 
اب تمہارے بغییر بیتی ہوئی بارش
تمہارے ساتھ بیتی ہوئی بارش سے زیادہ رلاتی ہے
اور کہیں کوئی راستہ کھلا نہیں رہنے دیتی

فرحت عباس شاہ

**********************

بادل

کب تلک یونہی ٹھہرے رہو گے
عین دل کے اوپر
اور آنکھوں کے اندر
تمہارے آجانے سے
دور دور رتک چھا جانے سے
دھوپ تو کم ہو جاتی ہے
ٹھنڈی اور میٹھی ہوا بھی چلنے لگتی ہے
لیکن اداسی بہت زیادہ ہو جاتی ہے
اور پھیل جاتی ہے
تم سے بھی زیادہ دور دور تک پھیل جاتی ہے
مجھے مت چھوا کرو
تمہارا غم آلود لمس
آنکھوں کی طرح
پورے وجود کو بھگو دیتا ہے
مجھے لگتا ہے
میرے ہاتھ بھی رو دئیے ہیں اور بازو بھی
اور بدن بھی
اور آنکھیں 
آنکھوں کی تو خیر بات ہی نہ کرو
آنکھوں سے تو تم کبھی گئے ہی نہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

کیفیت کی اپنی بھول بھلیاں ہیں
تیرے خواب میں جاگے اور بے تاب ہوئے

رستے دینے والے جانے کہاں گئے
رستہ روکنے والوں کی تو بھیڑ لگی

دھوپ کی خوشبو دور دور تک پھیلے گی
سوچ کے ماتھے پر سورج مہکاؤں گا

چپ کے بارے دل میں ایک تجسس ہے
تصویروں سے باتیں کرتا رہتا ہوں

گھوم گھوم کر گھومتے پھرتے رہتے ہیں
آوارہ لوگوں کی منزل کیا ہو گی

پل دو پل سے غم کے مارے آ جاتے ہیں
شب آتی ہے اور ستارے آ جاتے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

جنگل 

شہروں میں آن بسے ہو
الجھے ہوئے راستے
خار دار جھاڑ جھنکاڑ اور بھوک
ہر کوئی اپنے اپنے پیٹ کی بوری میں بند
دوسروں کی بوریوں پر پنجے مارے جارہا ہے
ایک دوسرے کی شاخوں میں الجھی ہوئی شاخیں
اور سینگوں میں پھنسے ہوئے سینگ
کٹکتےلچکتے دانت
نوچتے کھسوٹتے ناخن
اور خون کی بو
غیر واضح اجالا
نیم تاریکی
اور گھاتوں میں چھپے بیٹھے زخم
اور سروں پر منڈلاتی پھرتی موت

فرحت عباس شاہ

**********************

انسان

کسی دن تمہیں
تمہارے آسمان کی زمین سے اتار لاؤں
اور اپنی زمین کے آسمان پر لا بٹھاؤں
اور پوچھوں
یہاں بیٹھ کے کائنات کیسی لگتی ہے
اور پھر تمہیں یہیں اکیلا چھوڑ کے
خود تمہارے آسمان والی زمین پر چلا جاؤں
وہاں سے تمہیں دیکھوں
بالکل اپنے جیسی حالت میں دیکھوں
اور تمام تر سنجیدگی کے ساتھ
ایک نپے تلے
اور طے شدہ نظام کا حصہ قرار دے دوں

فرحت عباس شاہ

**********************

دل

تھوڑا تھوڑا جمع کرتے رہنے سے
دل اور زیادہ بکھر گیا ہے
اب سوچتا ہوں
سمیٹنے کی کوشش نا ہی کی ہوتی تو اچھا تھا
’’تمہارے بعد‘‘
اور ’’تمہارے بغیر‘‘ میں بہت فرق ہے
’’ تمہارے بغیر ‘‘ میں بہت کچھ ’’ہے‘‘
اور ’’تمہارے بعد‘‘ میں شاید کچھ بھی ’’ نہیں‘‘ 
سوائے تقسیم در تقسیم کے عمل کے
ہمارے ساتھ جو کچھ ہونا تھا
لگتا ہے صرف میرے ساتھ ہوا ہے
دل اور زیادہ بکھر گیا ہے
اور بکھر کے آدھے سے زیادہ کہیں کھو بھی گیا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

چاند

تم جانا چاہتے ہو تو جاؤ
آسمانوں پر تو آؤ گے ہی نا
اماوس کی بیمار راتوں کے علاوہ
رات کے ماتھے کا ٹیکہ بن کے
یا آسمان کے کانوں کا بالا پہن کے
میرے گھر کی دیوار پر سے بھی گزرو گے
جنگل میں بھی جا ٹھہرو گے
جھیل میں اترو گے
دل کی شاخوں سے الجھتے پھرو گے
میری بینائیاں تمہیں چھو آئیں گی
پلکیں تمہارے چاروں طرف پھیلے ہوئے نور کو بوسہ دیں گی
میری روح تمہیں اپنی گود میں بھر لے گی
ہوا لوری سنائے گی
تمہیں نیند آجائے گی
اور مجھے قرار آجائے گا
اگرچہ تمہارے بغیر
اور تمہارے بعد
میری زندگی اماوس کی وہ رات بن جاتی ہے
جس میں کوئی شے سانس کو اندر جکڑ لیتی ہے
اور دل کو مسلنا شروع کر دیتی ہے
آنکھوں میں تاریکیاں اتر آئی ہیں
اور روح دھند سے بھر جاتی ہے
لیکن پھر بھی
اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ
آسمانوں پر تو آؤ گے ہی نا

فرحت عباس شاہ

**********************

دور دل میں اترنا پڑتا ہے
روح کی خاک چھاننے کے لیے

آپ کو خود نکلنا پڑتا ہے
اپنی ہی ذات جاننے کے لیے

سینکڑوں راتیں جاگتے گزریں
کشف کی رات جاننے کے لیے

زندگی کی نفی ضروری ہے
عشق کی بات ماننے کے لیے

منفیوں کی نفی بھی لازم ہے
کوئی اثبات جاننے کے لیے

فرحت عباس شاہ

**********************

سورج

ہمارا سورج تو نجانے کب سے سوا نیزے پر آچکا ہے
ہمارے دل کے عین اوپر
سلگتی ہوئی دھوپ
اور دہکتی ہوئی آگ
آسمان جیسے پگھل کر ہمارے اوپر گر رہا ہے
ہماری آنکھوں کی جگہ پڑ جانے والے گڑھوں 
اور ہونٹوں کی جگہ ابل پڑنے والے آبلوں پر
اور زمین جیسے کسی کھولتے ہوئے لاوے کی طرح
ہمارے بدن کا ماس بہائے لے جا رہی ہے
اور ہڈیوں کی جگہ رہ جانے والے کوئلے
اس قابل کہاں ہیں
کہ ہمیں کہیں بھگا کر لے جائیں
کہیں بھی

فرحت عباس شاہ

**********************

زمین

زمین بھی کیسی عجیب شے ہے
کھانے کے لیے اناج
اور پینے کے لیے پانی دینے والی
چھاؤں کے لیے درخت
اور سائے کے لیے دیوار بخشنے والی
چلنے کے لیے راہ اور بیٹھنے کے لیے فرش
مہیا کرنے والی
زمین بھی کیسی عجیب شے ہے
کبھی کبھی جب ہمیں پر لگ جاتے ہیں
اور ہم اڑنے لگ پڑتے ہیں
اور کہیں بہت اونچا اڑنے کی کوشش کرتے ہیں
زمین ہمیں حیرت اور دکھ سے تکتی رہتی ہے
اور ہمارے پروں کو لمحہ بہ لمحہ بہت اونچا اڑنے کی خواہشوں 
کی خار دار جھاڑیوں سے الجھتا ہوا دیکھتی رہتی ہے
حالانکہ ہم کچھ بھی دیکھ نہیں رہے ہوتے
اور زمین یہ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے
یہ زمین بھی کیسی عجیب شے ہے
جب ہم گر پڑتے ہیں
اور مر جاتے ہیں
تو ہمیں اپنے دامن میں پناہ دیتی ہے
اور ہماری نیند کا بہت خیال رکھتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

ساون

اس بار
ساون اور زیادہ گھٹن زدہ ہو کے آیا ہے
لگتا ہے
تم اور زیادہ دور چلے گئے ہو
بارش نے اس بار
صرف راستے روکنے کا کام کیا ہے
اور گھروں کو بہا لے جانے کا کام
جن درختوں پر جھولے ڈالنے تھے
اور کن سڑکوں پر پھرنا تھا
بارش نے باقی نہیں رہنے دیں
سکھیوں سہیلیوں والا ساون
جانے کہاں چلا گیا ہے
اور بھیگ جانے والی بوندا باندی
اور پھوار۔۔۔
اور رم جھم۔۔۔۔
بارش مں بہت شور ہے
جیسے کوئی برہم اور کج ادا اور پھر اجنبی ناراض
اس بار لگتا ہے
تم اور بھی زیادہ دور چلے گئے ہو

فرحت عباس شاہ

**********************

روشنی

محبت روشنی پھیلاتی ہے
میری آنکھیں چندھیا گئی ہیں
مجھے کچھ نظر نہیں آرہا
سوائے اس کے جو مجھے کچھ دیکھنے نہیں دے رہی
محبت روشنی پھیلاتی ہے
اور روشنی خود غرض ہوتی ہے
اور خود غرضی کچھ اور نہیں ہونے دینا چاہتی
وہ آنکھیں جو میرے دل میں کھل گئی تھیں
کم پڑ گئی ہیں
روشنی بہت تیز ہے
اب دل سے بھی کسی اگلی بستی میں آنکھیں کھولنا ہوں گی
اور اردگرد کو خوب اچھی طرح 
جی کھول کے دیکھنا ہوگا

فرحت عباس شاہ

**********************

رائیگاں رائیگاں ہوا محسوس
آرزو آرزو سسکتے ہیں

ہم ترے حسن پر نثار نہ تھے
ہم ترے نظرئیے کے قائل تھے

زندگی زندگی پہ روتی ہے
المیہ المیے پہ ہنستا ہے

بے سبب عشق میں دھکیل دیا
ورنہ صحرا ہی کم نہ تھا ہم کو

جن سے ہوتی ہے روح کو تکلیف
بے شمار اس طرح کی باتیں ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

درخت

دل کی زرخیز مٹی میں
بیج تو تھا ہی
پھوٹ نکلا 
تمہارے ساتھ بتائی ہوئی صدیوں کا ثمر
کسی سایہ دار گھنے درخت کی طرح
بلند اور پھیلا ہوا
تمہاری یادوں کی ٹہنیاں
اور تمہاری آواز کے پھول
چھپ چھپا کے حاصل کیے ہوئے لمحوں کے سنہری پرندے
اور پرندوں کے گیت
میں کیا کروں
مجھے بھولے ہوئے جیون
بچھڑے ہوئے محبوب
اور گرے ہوئے درختوں سے خوف آتا ہے
درخت گر جائے تو اسے پڑا رہنے نہیں دیا جاتا
اور نا ہی سوکھ جانے دیا جاتا ہے
درخت بہت قیمتی ہوتے ہیں
درختوں کے بازو کاٹ کے
حفاظت بنائی جاتی ہے
پاؤں کاٹ کے سفر
آنکھیں نکال کے لوگ اپنے اپنے گھروں کی کھڑکیاں بنا لیتے ہیں
تیز دھوپ اور بہت ویرانی کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں 
دل کی زرخیز مٹی میں بیج تو تھا ہی
بہت سارے لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کی کھڑکیاں بنا لی ہیں
تیز دھوپ اور بہت ویرانی کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں

فرحت عباس شاہ

**********************

یاد

تمہاری یاد 
مرے زخمی دل سے
قطرہ قطرہ ٹپکتے ہوئے خون کی لکیر پر چلتی ہوئی
ہر بار
مجھے راستے ہی میں آن لیتی ہے
مرے قدموں کے نشانوں پر قدم رکھتی 
اور کہیں کہیں مرے آنسوؤں سے بھیگی ہوئی ریت پہچانتی
ہر بار
کسی نہ کسی طرح مجھے ڈھونڈ لیتی ہے
تمہاری یاد
مجھے کبھی کم نہیں ہونے دیتی 
اور نہ بھولتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

سائے

سائے کسی کے دوست نہیں ہوتے
اسی لیے تو سائے ہوتے ہیں
تم بھی تو آدھی دوپہر میں
آدھی گری ہوئی اور آدھی سلامت دیوار کے سائے تھے
اگر دوپہر پوری ہوتی
دیوار بھی سلامت نہ تھی
یقین اور بے یقینی کے درمیان کا موسم
زیادہ بے چین کر دینے والا ہوتا ہے
تم تو سائے تھے
میں سایا نہیں تھا
اس لیے بہت بے چین رہا
تمہارے اندر کسی دوست کی تلاش 
کسی غیر گمشدہ شے کی تلاش تھی
غیر گمشدہ اور لاحاصل
بالکل کسی آدھی دوپہر میں
کسی آدھی دیوار کے سائے کی طرح
غیر گمشدہ اور لاحاصل

فرحت عباس شاہ

**********************

قید

اپنے بختوں میں گھری ہوئی آزادی
آخر کسی قدر آزاد ہو سکتی ہے
یہ تو وہی بات ہوئی
رسی دراز کرنے والی
جس موڑ سے مڑ جانا تھا
ابھی تک نہیں آیا
ایک دائرے میں سفر کرتے ہوئے
اس طرح کا موڑ شاید آبھی نہیں سکتا
وقت کی پیمائش ممکن ہوتی
تو ہم اپنے اپنے وقت کا تعین کر لیتے
کلائیوں پر گھڑیاں باندھنے سے وقت گنتی میں نہیں آجاتا
بلکہ خود ہمیں ہماری پیمائش سے باندھ دیتا ہے
دروازوں کی بجائے دیواروں پر دستک دینے سے
ہم اپنے خوف کی آزادی کے ڈر سے محفوظ تو ہو جاتے ہیں
بچ نہیں جاتے
آنکھیں بند کرلینے سے بلائیں ٹلنے والی ہوتیں تو
اب تک ٹل چکی ہوتیں
چاہے آنکھیں کھلی رکھنے سے بھی
آج تک جتنی بلائیں سر سے ٹلی ہیں
یہ بھی وہی بات ہے
بالکل وہی 
رسی دراز کرنے والی

فرحت عباس شاہ

**********************

آپ نے دیکھے نہ ہوں گے ورنہ
خواب تو اور بھی تھے آنکھوں میں

خواب بے چین پرندوں کی طرح
پھڑپھڑاتے ہوئے اڑ جاتے ہیں

منتقل ہونے سے پہلے ہی کہیں
زندگی ڈوب گئی دریا میں

ایسے حالات نہیں تھے پھر بھی
ہم ترے ہجر پہ ایماں لائے

نیند اڑی اور کہیں جا پہنچی
رتجگا دور تلک پھیل گیا

فرحت عباس شاہ

**********************

سفر

بے اختیار کہاوتیں سرمایہ کیسے ہو سکتی ہیں
مجھے گونگے بہرے لفظوں سے بہلاتے ہو
یا تو پہلے لفظوں میں روح پھونکو، جان ڈالو
ان کے دل اور آنکھیں بتاؤ
سماعت دو
بصارت دے کے بصیرت ڈالو
کیا تم کبھی کسی بات پر دکھی ہوئے ہو
بس اسی بات پر نا کہ تم کہیں وقت پر پہنچ نہیں سکتے
تمہیں کہیں بہت زیادہ پیسے ملتے تھے اور کہیں کم ملے ہیں
اور بس اسی بات پہ نا کہ کسی نے تمہارا موقف پورے کا پورا تسلیم نہیں کیا
اور تمہاری رائے سے اختلاف بھی کیا ہے
بس، انہیں باتوں پر نا، یا ایسی ہی کچھ اور باتوں پر
میں جس دن بظاہر نہ رونے والی بات پر بہت رویا تھا
اور پھر اس رونے سے کسی تسکین کی خواہش نہیں رکھی تھی
میرے اندر ایک مرجھائے ہوئے دکھ نے آنکھیں کھولی تھیں
اور ایک دن ایسے ہی کسی تڑپتے ہوئے کو دیکھ کر
میرا دل زور سے لرزا تھا
میرے اندر سہمے ہوئے دکھ کا دل دھڑکنے لگ گیا تھا
مجھے گوگے بہرے لفظوں سے مت بہلاؤ
ابھی میں دکھ اور محبت کے سفر پر ہوں
اور بصیرت اسی راستے پر سفر کرنے سے ملتی ہے
اور پھر بے اختیار کہاوتیں سرمایہ کیسے ہو سکتی ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

الجھنیں

الجھنیں
زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہنے دیتیں
اپنے ارد گرد تنے ہوئے جال کو جتنا ہٹائیں
اور زیادہ قریب آجاتا ہے
اور پھر اور زیادہ قریب
تعلق، وعدے، رشتے، وفا
میں، وہ، ہم، تم، سب الجھنیں ہیں
ہمارے ارد فرد تنا ہوا جال
دن، بدن قریب آتا ہوا
کسی دن یہی ہو گا
تاریں ہماری گردن کے گرد اپنا گھیرا تنگ کر دیں گی
جال اور زیادہ تن جائے گا
الجھنیں اور زیادہ الجھ جائیں گی

فرحت عباس شاہ

**********************

رات

بعض چیزوں سے دل لگ جاتا ہے
آپ ہی آپ
چاہے ہم نا بھی لگانا چاہیں
رات میرے لیے اجنبی نہیں رہی
نا پہلے کچھ تھی
کسی روشن چراغ کی طرح مجھ سے واقف ہے
اور آنکھوں کی پچھلی طرف کھلی ہوئی کھڑکی کی طرح
میں اس سے واقف ہوں
جب ہم آنکھیں بند کرتے ہیں
ایک اجلی اور چمکدار رات ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہے
ہمیں اپنی گود میں بھر لیتی ہے
اور ہمارے دلوں پر بوسے دیتی ہے
جب سے بچھڑا ہوں
رات کا انتظار زیادہ رہنے لگا ہے
اس وقت سے بھی زیادہ
جب نہیں بچھڑا تھا
رات کبھی تنہا نہیں ہوتی
ہمارے ساتھ ہوتی ہے
اور ہم اس سے نا بھی بولنا چاہیں
تب بھی بولتے ہیں
اور اگر ہم اس کے ساتھ خاموش نا بھی رہنا چاہیں
پھر بھی خاموش رہتے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

شام

ایک خاموش اور گھائل اداسی
ایک ویران اور غیر آباد وقت
ایک افسردہ خلش اور تھکی ہوئی بے چینی
شام کے بہت سارے رنگ ہیں
اور بہت سارے نام
کبھی کبھی کسی تحلیل ہوتے ہوئے ساحل
اور دھندلاتی ہوئی سحر کی طرح
دلوں پر آکے بیٹھ جاتی ہے
اور کسی ٹوٹی ہوئی آس کی ریت
مٹھیاں بھر بھر کے ہماری گردن
اور ہمارے سینے پر مل دیتی ہے
ہمارے پھیکے پڑ گئے آنسوؤں سے تر
ہمارے رخساروں پر زردیاں ملتی
ہمارے کندھوں پر سر رکھ کے صدیوں روتی رہتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

دل میں خواہش تھی بہت دیر سے آزادی کی
رات کچھ خواب مرے شہر میں آوارہ پھرے

بے سبب نیند سے جاگے تو یہ محسوس ہوا
بے قراری کو کوئی اور بھی پوشیدہ ہے

ایک بس تو ہی نہیں روح کے تڑپانے کو
شہر کا شہر چلا آتا ہے غمخانے کو

راکھ کے ڈھیر میں سوئی ہوئی چنگاری کو
کیوں ہوا دیتے ہو بہلی ہوئی بے زاری کو

رات اک خواب میں ہم دونوں ملے ہیں اور پھر
میں نے دیکھا کہ ترے ہاتھ میں زنجیریں ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

ہوا

ہوا
آوارہ اور مسافر
اس نے مجھے چھوا
میرا چہرہ اس کی اپنائیت سے بھر گیا
اس نے مجھے غصے سے دیکھا
میرے پاس سے گزری اور جھلسا دیا
درختوں میں چھپ کر رونے والی
کس دور بیٹھے ہوئے محبوب کی طرف سفر کرنے والی
تمہاری طرف سے کبھی میری طرف نہیں آئی
میں نے اسے بہت دفعہ بلکہ ہر دفعہ تمہاری طرف بھیجا ہے
تمہارے جدائی میں بہائے آنسو میں بھگو بھگو کے
ٹھنڈی، یخ بستہ، نمناک
آندھیوں سے بالکل مختلف
تمہارے غم سے غمناک
میں نے سوچا، ایک مدت سے کھل کے سانس نہیں لیا
دل پہلے سے زیادہ کمزور پڑ گیا ہے۔
ہوا
آوارہ اور مسافر
میں بہت بیمار پڑ گیا ہوں
اور مضمحل ہوں، اور بہت اداس ہوں
مجھے کچھ پڑھ کے پھونک دو
مجھے یقین ہے میں بہت سنبھل جاؤں گا

فرحت عباس شاہ

**********************

دشت

بہت پیاس ہے
کاش کسی روز ہم موسلا دھار رو سکیں
اور اپنے آنسو پیئیں
اور پیاس بجھائیں
بہت دھوپ ہے
آبلے پیروں سے چلتے آنکھوں تک آگئے ہیں
آنکھوں سے گزر کر دل میں اتر آئیں گے
ایک تم ہی تو درخت تھے
تم ہی صحرا میں بدل گئے 
روکھا سوکھا اور دہکتا ہوا صحرا
کس کی چھاؤں میں بیٹھیں
کس سراب سے بچیں
راستہ کیسے تلاش کریں
پپڑیاں جمے ہونٹ
خشک جلا ہوا گلا
اور لکڑی ہو چکی زبان
کسے پکاریں
کسے آواز دیں
اور پھر صحرا کب کسی کی سنتے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

دریا

دریا کناروں پر آباد بستیوں کی قسم
محبت آباد ہی کرتی ہے برباد نہیں
دریا جہاں جہاں تک بہتا چلا جاتا ہے
شادابی بکھیر دیتا ہے
تمہارے اور میرے درمیان ایک دریا تھا
جو میری طرف سےبہتا چلا گیا
اور تمہاری طرف ٹھہر گیا
حالانکہ دریا ٹھہرتا نہیں
بس ٹھہرا ہوا لگتا ہے
تمہارا کنارا میرے کنارے کی طرف بڑھا نہیں
اور میرا کنارا تمہارے کنارے تک پہنچ نہیں سکا
دریا پھر بھی موجود رہا
میرا خیال ہے
دریا ہی وہ پل تھا جو تمہارے اور میرے کناروں سے ملا ہوا تھا
اور شاید دریا ہی وہ پل ہوتا ہے
جو ہمیشہ ملائے رکھتا ہے
کبھی درمیان سے ٹوٹ کے گر نہیں پڑتا
محبت اگر محبت ہے
تو کبھی دو کناروں کی طرح آپس میں مل نہیں سکتی
ایک دریا کی طرح دونوں کو ساتھ ساتھ لیے چلتی ہے
الگ بھی نہیں ہونے دیتی
ہم جب چاہیں
ایک دوسرے کی طرف
اپنی اپنی کشتیاں روانہ کر سکتے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

اداسی

دل کا دکھا ہوا عالم
اور غمزدہ فضا
جب آنکھیں رونا چاہتی ہیں
اور رو نہیں سکتیں
جب ہم لمبی لمبی سانسیں کھینچتے ہیں
اور گھٹن مزید بڑھ جاتی ہے
جب روشنی میں نیم تاریکی صاف نظر آتی ہے
اور تاریکی میں روشنی کہیں دکھائی نہیں دیتی
جب وقت سست رو ہو جاتا ہے
ہوا تیز
اور نمی ٹھہر جاتی ہے
کبھی پیشانی پر
تو کبھی آنکھوں میں
دل کا دکھا ہوا عالم
اور غمزدہ فضا
جب تم پاس نہیں ہوتے
یا
جب تم پاس ہوتے ہوئے بھی پاس نہیں ہوتے

فرحت عباس شاہ

**********************

راکھ

تمہاری جدائی کے جشن میں
ہم نے اپنے گریبان پھاڑے اور ویرانوں میں نکل پڑے
اور راکھ بھر بھر 
اپنی اپنی مانگ آباد کی
ہمارے گھر جلائےگئے
اور گھروں کی راکھ ہوا میں اڑا دی گئی
ہم نے تمہیں پھر بھی یاد رکھا
ہمارے پاس
تمہیں یاد رکھنے کے سوا
کوئی دوسرا راستہ تھا ہی نہیں
ہم اپنے گھروں
اور اپنے جیون کی راکھ میں
انگلیاں پھیر کر
تمہاری تصویر بناتے
اور دل سے چنگاریاں نکال نکال
کے راکھ میں چھپا دیتے
اور پہروں بیٹھے اسے کریدتے رہتے

فرحت عباس شاہ

**********************

ظہورِ حق کے علاوہ بھی ہم نے دیکھا ہے
خیال خام میں پنہاں کبھی کبھی تم تھے

نصیب میں نہ رہا والہانہ پن تو کیا
دبے دبے ہوئے انداز اب بھی باقی ہیں

ہمیشہ ہم سے تری دھوپ نے ردا چھینی
وگرنہ گرمی دنیا و دین کچھ بھی نہ تھی

ترے سفر کی مہارت پہ اعتماد نہ تھا
کچھ اس لیے بھی تجھے ساتھ ساتھ لے کے چلے

زمانے بھر کے مصائب کی بات کرتے ہو
تمہیں تو اپنے مسائل سے ہی نہیں فرصت

جو اختیار کیا پیشہ ستم اس نے
تو ہم نے بار خدا اہتمام صبر کیا

فرحت عباس شاہ

**********************

پتے

وہ دن تو کب کے بیت چکے
جب خنک ہوا چلتی
شاخیں لہلہاتیں
اور ہم تالیاں بجاتے
اس کے بعد میں
اس کے بہت ہی جلدی بعد میں
ہم سوکھ گئے تھے
پھر شاخوں سے ٹوٹ کے گر پڑے تھے
پھر بہت دن ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر
مارے مارے اڑتے پھرے
ہم بہت دن مارے مارے اڑتے پھرے
اور اب
پیروں تلے آ آ کے
کچلے اور روندے جا رہے ہیں
ایک اک کر کے
دو دو کر کے

فرحت عباس شاہ

**********************

بیابانی

ایک عجیب سی بیابانی میں دن گزار دینا
اور ایک عجیب سی ویرانی میں رات
ایک عجیب سی خاموشی میں صبح بتا دینا
اور ایک عجیب سی تنہائی میں شام
ایک معمول ہے
جس سے شاید ہمارے دل کے عالم کو معمول بنا لیا ہے
ہم آوارہ نصیب لوگ
دکھ ہمیں تلاش کر لے
یا ہم دکھ کو تلاش کر لیں
ایک ہی بات ہے
بہت ساری عجیب سی باتیں
ہماری بہت ساری عجیب سی باتوں سے آن ملی ہیں
جس دن ہم نے کوئی دوری، کوئی ہجر محسوس کر لیا
اس دن ہم اکٹھے ہونے اور آن ملنے کی بجائے
ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے
اور پھر ایک اور طرح کا عجیب سا جیون بسر کریں گے

فرحت عباس شاہ

**********************

محبت

میں نے کہا تھا نا
محبت جنگل ہوتی ہے
جس سے نکلنے والے سبھی راستے کسی اور جنگل میں کھلتے ہیں
میں تمہارے جنگل سے نکل نہیں سکا
جنگل در جنگل ایک عجیب سلسلے میں قید ہو کر رہ گیا ہوں
اور شاید بھٹک بھی گیا ہوں
ورنہ کہین ٹھہر ہی گیا ہوتا
میں نے بہت ساری جھیلوں کو اپنی سہیلیاں بنا لیا ہے
اور بہت سارے درختوں کے نام
تمہارے نام پہ رکھے ہیں
اب میں جہاں سے بھی گزرتا ہوں
تمہارے نام والے درختوں کو پہچان لیتا ہوں
اس کے باوجود کہ وہ پہلے سے بہت بدل چکے ہوتے ہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

خواب

میں نے تمہیں خواب میں دیکھا ہے
اور تم سے ملا ہوں
ایک دکھ دینے والے خواب میں
پھر بھی مجھے لگا میں بیدار ہو گیا ہوں
کسی گہری اور دھند آلود نیند سے
میری غمزدہ بیداری مجھے حیرت سے تکنے لگی
اور میں تمہیں تکنے لگا
تم مجھے ویسے نہیں لگے
جیسے تم ہو
میں نے تمہیں ایسا دیکھا
جیسے میرے دل میں تھا
ایک دکھ دینے والے خواب میں اور کیا دیکھا جا سکتا ہے
وہی نا! جو سچ نہیں ہوتا
میں نے سوچا 
مجھے سو جانا چاہئیے
میں نے خواب کو لپیٹا اور تکیہ بنا کے
احتیاط کے ساتھ بستر کے نیچے رکھ لیا

فرحت عباس شاہ

**********************

دکھ

دکھی ہوئی رات 
آنسوؤں کی طرح رخساروں پر ٹکے ہوئے ستاروں کی ٹمٹماہٹ میں
کہیں کہیں سے کالے آسمان کی پٹیاں لپیٹے
درد سے دھڑ دھڑاتے ہوئے سر کو پٹیاں لپیٹے
کراہتی ہے
دکھی ہوئی رات
کسی بیمار کے تلملائے ہوئے زخموں کی طرح
روح سے لپٹی ہوئی چیخوں سے
اپنی آواز بلند کرتی ہے
اور مجھے اپنے پاس بلاتی ہے
اور میرے چاروں طرف پھیل جاتی ہے
تمہارا کہیں کہیں سے ٹوٹا ہوا لہجہ
اور جگہ جگہ سے مسکا ہوا تعلق
اور پھیلی پھیلی ہوئی توجہ
میرے اندر ایک دکھی ہوئی رات ہے
جو میری روح سے لپٹی ہوئی چیخوں سے اپنی آواز بلند کرتی ہے
مجھے اپنے پاس بلاتی ہے
اور میرے اندر ہی اندر
چاروں طرف پھیل جاتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

خون

اپنے اپنے خون کے دباؤ میں آئے ہوئے
ہم لوگ
اپنے اپنے فاقہ زدہ حوصلوں کی ٹوٹی ہوئی کمروں پر
کھوکھلی خود فریبی کی تھپکیاں دیتے ہیں
آنکھیں درد سے کھل نہیں پاتیں
تو دل کھول کے خود کو دھوکہ دینے لگ جاتے ہیں
اپنے اپنے سپنوں میں اندھیرے جھونک کے
انگلیوں کی موم بتیاں جلاتے رہتے ہیں
ہم نے ان راستوں پر جانا چھوڑ دیا ہے
جہاں مر جانے والے محبوب
اپنے اپنے نام کے کتنے لکھوا کر رکھ گئے ہیں
ہمیں ہماری اپنی اپنی برداشت میں
اپنی اپنی سولیاں نظر آتی ہیں
ہماری اپنی اپنی سولیاں
ہمارے خون کا دباؤ ہمیں جس طرف کو
بہائے لیے جا رہا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

پڑ گیا بربادیوں سے واسطہ
راکھ کی سوداگری مہنگی پڑی

کشمکش سے دور رہنا چاہئیے
پڑ نہ جائیں بل کہیں احساس میں

رسم و راہ زندگی سے مختلف
ہجر کی اپنی الگ پہچان ہے

کٹ چکی ہے شہر کے ماحول سے
زندگی جیسے کوئی مجذوب ہو

دشت بھی ویسا ہے سورج بھی وہی
بے سبب برسی ہیں دل میں بارشیں

اہتمام درد کی خاطر تمہیں
اتنی بے زاری میں بھی بھولے نہیں

آنکھ کی بے چارگی تو دیکھئیے
کانپتی ہے آنسوؤں کے خوف سے

فرحت عباس شاہ

**********************

گزرگاہ

ویران گزرگاہوں کا سفر ایسا ہی ہوتا ہے
بیتے ہوئے وقت کو یاد کرنا
تمہارے بارے میں سوچنا
اور گھبرا کے کمرے میں ٹہلنا شروع کر دینا
کسی مخاطب شخص کی سننے کی بجائے
کہیں اور گم ہو جانا
اور جواباََ ایک بے تعلق اور جھوٹی خاموشی سے
سر ہلاتے رہنا
کچھ لکھتے لکھتے اچانک کچھ اور لکھنے لگ جانا
اور بے خوابی سے ہار مان کے سوجانے کی خواہش ترک کر دینا
ویران گزرگاہوں کا سفر ایسا ہی ہوتا ہے
بہت سارے شور میں بولنا
اور بہت ساری بے معنی چپ میں چپ رہنا
یا جیسے
کبھی کبھی اپنی تنہائی کے تابوت سے نکل کے دوستوں کے ہمراہ چل پڑنا
ویران گزرگاہوں کا سفر ایسا ہی ہوتا ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

بے وفائی

بے وفائی پیچھا کرتی ہے
راستوں کے علاوہ
قدموں کے بغیر
اور گزرے ہوئے کے متوازی
میں نے سوچا تھا شہر بدل لوں
پھر ملک بدل کے دیکھا
بہت سے لوگ بدلے
اپنی ساری کی ساری دنیا بدل ڈالی
موت کے اندر بھی تھی
پہلے مجھے صرف شک تھا
پھر یقین ہوا
اب ایمان ہے
بے وفائی پیچھا کرتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

بیڈ روم

بلا جواز رفاقت
اور بے تعلق قربت
در و دیوار میں چنی ہوئی روح تمہارے ہجر کا بدل
نہیں ہو سکتی
اور بستر پر بندھا ہوا بدن
اور تکیے سے الجھی ہوئی سانسیں
تم سے علیحدہ نہیں کی جاسکتیں
کمرے میں نیند کم ہے اور بے خوابی بہت زیادہ ہے
پھر بھی خواب پہلے سے زیادہ آن بسے ہیں
ایک پر پڑے خواب
سائڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے خوابوں سے زیادہ نظر آتے ہیں
وہاں ایک فریم بھی تھا تمہاری تصویر والا
جو اب وہاں نہیں ہے
دکھائی پھر بھی دیتا رہتا ہے
یہ ٹھیک ہے کہ تم میرے کمرے میں آئے نہیں ہو
لیکن یہاں سے گئے بھی تو نہیں

فرحت عباس شاہ

**********************

قیدی

بارش قیدی نہیں ہوتی
بارش آزاد ہوتی ہے
تپتی دوپہر میں جلتے پگھلتے ہم
اور کچے گھر
اور صحرا
اور کھیت
اور پیاس
سارے کے سارے قیدی ہوتے ہیں
اور بارش آزاد ہوتی ہے

فرحت عباس شاہ

**********************

تاریخ

کتنی بیتی ہوئی صدیاں
کبھی کبھار اچانک اکٹھی ہو جاتی ہیں
اور اکٹھی ہو کر دل میں آن گرتی ہیں
یقیناََ پتھر اتنے بھاری نہیں ہوتے
بعض اوقات جتنے بھاری کچھ لمحے ہوتے ہیں
کچھ بیتے ہوئے لمحے اور بھی زیادہ بھاری ہوتے ہیں
اور صدیاں۔۔
سوچتے سوچتے سوچیں شل ہو جاتی ہیں
اور دھڑکتے دھڑکتے دل
پرانے کنویں بھی بہت بھاری ہوا کرتے ہیں
جب ہوتے تھے
اب تو دفن ہوئے
پرانے دریاؤں اور پرانی وفاؤں کی طرح
تاریخ بھی عجیب مسافر ہے
واقعات کے راستوں پر بھاگتی دوڑتی، لنگڑاتی گھسٹتی، اٹھتی، بیٹھتی
اور ہنستی روتی
بالکل بیتی ہوئی صدیوں کی طرح
ایک مٹھی بھر دل کے اندر

فرحت عباس شاہ

**********************

حالات

بڑی مشکل سے بہلائے گئے دکھوں کا کیا بھروسہ
کسی بھی پل روح بے چین کر سکتے ہیں
خراشوں سے اٹی ہوئی روح
دراڑوں سے بھری ہوئی دیوار کی طرح ہوتی ہے
جانے کب گرے
خاک اور اینٹوں کا ڈھیر بن جائے
اپنے بارے میں کچھ بھی کہنا
ان حالات میں اور بھی زیادہ غیر یقینی ہے
کیا پتہ
کل کلاں آنکھیں ساتھ نہ دیں
ہاتھ کہنا مانیں نا مانیں
ہونٹ کچھ کہیں نا کہیں
دل کچھ سنے نا سنے
روح اپنی جگہ قائم رہے نا رہے
ان حالات میں کچھ بھی یقینی نہیں ہے
اور پھر
بڑی مشکل سے بہلائے گئے دکھوں کا کیا بھروسہ

فرحت عباس شاہ

**********************

ویرانی

درد کی کال کوٹھڑی میں
عمر قید کے سزا یافتہ
بے قرار اور گھبرائے ہوئے دل کا عالم
اور دل میں قید
شکستہ اور کملائی ہوئی آرزؤئیں
اور آرزوؤں میں بند
تھکا ہارا اور شکست خوردہ انتظار
اور انتظار کے بعد
دور دور تک خلا اور کھوکھلا پن
خلا اور خاموشی دور دور تک
خاموشی اور ویرانی

فرحت عباس شاہ

**********************
اختتام
**********************
اُداس شامیں اُجاڑ رستے
**********************
فرحت عباس شاہ
**********************

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔