اے عشق ہمیں آزاد کرو
کتنی ہی
زنجیریں
دل میں
نوکیلے تپتے آہن سے بھی
کہیں زیادہ چبھتی ہیں
اور گھٹن کی بوجھ دیواریں تو
جیسے پشت اور سینے پر تعبیر ہوئی ہوں
عجب عجب سے پچھتاوے
اور بلا جواز پشیمانی سی
سانسوں اور آنکھوں میں اکثر
پسی ہوئی مرچوں کی سلگن دور دور تک بھر دیتی ہے
بے چینی کے حلقے روح کو
سختی سے جکڑے رکھتے ہیں
آنسو گلے کو
اندر سے پکڑے رکھتے ہیں
ہجر کی جیلیں
شہر کی جیلوں سے بڑھ چڑھ کر
عمر دبوچ لیا کرتی ہیں
جو کچھ کرنا ہو آخر میں
پہلے سوچ لیا کرتی ہیں
فرحت عباس شاہ
(اے عشق ہمیں آزاد کرو)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔