Friday, 29 January 2016

Army chief ka bawaqar fesla : daily city 42 column : farhat abbas shah

0 comments
آرمی چیف کا باوقار فیصلہ
(ڈیلی سٹی 42 کالم : فرحت عباس شاہ)

****************

دُنیا کے بہت سارے دانشوروں کو یہ سُن کر مایوسی ہوئی کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مدت ِ مُلازمت میں توسیع سے انکار کردیا ہے۔ کتنی بد نصیبی کی بات ہے ہم ایسے دور میں سانس لے رہے جب ہرطرف حصول ِ توسیع جائداد سے لیکر حصولِ توسیع اختیار و اقتدار کے لیے مارے مارے پھرنے والے لوگ کہیں سے انکار سُنتے ہیں تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا۔ حالانکہ پوری دُنیا میں اصول و قوائد بنائے ہی اسی لیے جاتے ہیں کہ ہر انسان اپنی ناک کی حد تک آزادی کا لطف اُٹھائے اور جہاں سے کسی دوسرے کی حد شروع ہو وہاں بریک لگا دے ۔ جنرل راحیل شریف نے جس وقار کے ساتھ اپنے عہدے کی باگ ڈور سنبھالی اور جس طرح ایک خالص سپاہی کی طرح اپنے پیشہ ورانہ فرائض سنبھالے اسی معتبر طریقے سے اپنے ٹائم پر ریٹائرمینٹ کا اعلان کیا ہے۔ اس سے نہ صرف اُن کی ذاتی عزت میں اضافہ ہوا ھے بلکہ پاک افواج کے ادارے کی ساکھ میں چار چاند لگے ہیں۔
بریگیدئر حامد سعید نے اپنی کتاب ، " سیاست، ریاست اور قیادت " میں پاکستان کے اندر لگنے والے مارشل لاز کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک کے بیشتر سیاستدان اور اُن کے چہیتے دانشور جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو واویلا مچاتے ہیں کہ اگر آرمی نے اقتدار نہ سنبھالا تو ملک کو انتہائی خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ اور جب آرمی ملک کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تو شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ آرمی کا کام تو سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ 
بنیادی بات یہی ہے کہ ملک میں سیاسی صورتحال بگاڑنے میں کسی نہ کسی زاویہ سے سیاستدان ہی سرگرم عمل پائے گئے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں شیخ رشید صاحب فرما رہے تھے کہ اگرچہ آرمی چیف کا ایکسٹینشن نہ لینے کا فیصلہ اُن کی ذات اور ادارے کے لیے بہت بہتر ہے لیکن ابھی ملک کو اُن ضرورت ہے۔ میرے خیال میں ھمارے ملک کو اس وقت سب سے زیادہ قوائد و ضوابط کی پابندی کرنے کی مثالیں سیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ایسے بے ربط ، بے قائدہ اور بے اصول معاشرے میں بدلتے جا رہے ہیں جس کی کوئی کل سیدھی ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہم اپنے فرائض اور ذاتی دلچسپی میں فرق کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں۔ قومی مفاد بھی ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھتا نظر آتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر ملک کا اتنا اہم عہدیدار اصولی فیصلہ کرتا ہے اور ذاتی دلچسپی یا کچھ احباب کی ذاتی رائے پر ادارے کے قوائد اور عزت کو ترجیح دے رہا ہے تو یہ نہایت خوش آئیند ہے بلکہ ھماری اپنے ملک کے بارے میں خوش امیدی کو تقویت دینے والا ہے

آخر میں تین شعر آپ کی نذر 

لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے

راستوں پر گھاس اُگ آئی اگر
کون لوٹے گا سمندر پا ر سے

کاٹتا ہے دُشمنِ چالاک اب
گردنوں کو گردنوں کی دھار سے


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔