سوچتے رہنے کی عادت ہو گئی
چونکتے رہنے کی عادت ہو گئی
ہجر کی راتوں کے سنگ آنکھوں کو بھی
جاگتے رہنے کی عادت ہو گئی
جانے کیا ڈر ہے کہ اپنے آپ سے
بھاگتے رہنے کی عادت ہو گئی
وہ نہیں لوٹے گا پھر کیوں رہگزر
دیکھتے رہنے کی عادت ہو گئی
وہ مرے اندر چھپا ہے اور اُسے
بولتے رہنے کی عادت ہو گئی
فرحت عباس شاہ
(شام کے بعد)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔