ترا وجود تو میراگمان ڈوب گیا
افق میں دور کہیں آسمان ڈوب گیا
بھری ہیں جس طرح آنکھیں ہماری اشکوں سے
ہمیں تو لگتا ہے سارا جہان ڈوب گیا
ہوا سے رابطہ کرنے کی دیر تھی اور پھر
سمندروں میں مرا بادبان ڈوب گیا
ترا خیال ابھرتا نہیں لبوں سے مرے
مری پناہ میں مرا سائبان ڈوب گیا
یہیں کہیں کوئی رویا ہے بیٹھ کر فرحتؔ
یہیں کہیں پہ تمہارا نشان ڈوب گیا
فرحت عباس شاہ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔