2016


سُنو لوگو!
اکیلا میں نہیں زخمی 
مرے جیسے ہزاروں ہیں 
جو اپنے ان گنت قاتل دکھوں کو اپنی اپنی پیٹھ پر لادے 
مسلسل ٹھوکریں قدموں میں باندھے اور  نابینا شکستوں ، گُنگ چیخوں  سے بھری کچھ فائیلیں  دل سے لگائے،
بے تحاشا بے مرؤت کُرسیوں کی جھڑکیا ں سہتے ،
 فقط خود ساختہ  جھوٹے دلاسوں کے سہاروں سے لٹکتے پھررہے ہیں
اور اُن میں  میَں بھی صبح سے شام تک  چھینا گیا حق  مانگنے کے جرم میں  
جیسے پرائی موت مرتا ہوں 
پرائی موت مرتا ہوں میں روزانہ 
مرا مقتل  یہی تھانے ،  دفاتر،  ایڈمنسٹریشن ،  عدالت ،
 میڈیا  ہے اور شوکت خانموں جیسے،  
درندوں سے بھرے  بے رحم جنگل ہیں 
جہاں وحشی ڈریکولے،  اکاوئٹنٹ،  افسر،  ڈاکٹر،  منصف یا ایس ایچ او یا ڈی جی،
 سب مری آنکھوں مرے کپڑوں ، مرے چہرے سے میرے درد، بیماری ، ضرورت اور حیثیت کا اندازہ لگاتے ہیں ۔ 
اور اس کے بعد میری جیب میں کچھ بچ گئے سکوں کا  آوازہ لگاتے ہیں ۔
بڑی مشکل سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں میری موت سے پہلے کے لمحوں کا 
سُنو لوگو!  
اکیلا میں نہیں زخمی ،
 مرے جیسے ہزاروں ہیں 
جنہیں  اپنے کفن اُن سے بچانے ہیں  
جو  قبروں پر بھی قابض ہو کے پہلے تو کوئی مسجد بناتے ہیں 
پھر اس کے بعد  ڈی ایچ اے  یا  شاپنگ مال یا کوئی بہت مہنگا پلازہ یا محل تعمیر کرتے ہیں
انہیں پہچان لو ،  ــــــ لوگو  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
 جو بے توقیر کر کر کے ہمیں تسخیر کرتے ہیں۔


فرحت عباس شاہ

****************

مجھ میں بھڑکا ہے جو بے وجہ الاؤ تو ہٹا
میرے مولامرے سینے سے دباؤ تو ہٹا

تُو بھلے آ میرے حلقے میں مگر قبل اس کے
مال و دولت کی طرف اپنا جھُکاؤ تو ہٹا

امن کی میز پہ بھی بیٹھ ہی جائیں گے مگر
اس سے پہلے یہ جلاؤ، یہ گھراؤ تو ہٹا

درد بھی ایسا ہے چالاک کہ کچھ مت پوچھو
اک ذرا نام ترا اس کو بتاؤ تو ہٹا

تُو تو پتھر میں عطا کرتا ہے روٹی روزی
اپنے  دریاؤں کا اک سمت بہاؤ تو ہٹا

پھر مرے دل کے اُجڑنے پہ سزا دے مجھ کو
چاند کے ماتھے سے ویرانی کا گھاؤ تو ہٹا

ورنہ اس روز ترا درد مجھے لے جاتا
وہ تو میں زور سے بولاکہ بچاؤ تو ہٹا


فرحت عباس شاہ

****************

تو کیوں نہ آج یہ کریں کہ پھُول لیں ، پھلیں کہیں
سمجھ میں آگئی ہو میری بات تو چلیں کہیں

نظر نہ آئیں عشق کی طرح مہک  رہیں مگر 
تمام لوگ ڈھونڈتے پھریں یہ کونپلیں کہیں

تمہارے جیسے شاندار بے وفا ملے ہمیں
جو چاند کا چلن چُرائیں ،چاندنی ملیں کہیں

ہمارا دل کہ بانٹتا پھرے ہے خیر شہر میں 
چراغ ہوں تو ایسے ہوں، جو ہوں کہیں، جلیں کہیں

یہ ایسا عہد ہے کہ جس میں بے حسی رواج ہے 
کفِ ملال ہو اگر کہیں تو پھر ملیں کہیں

وہ روگ عمر بھر وبالِ جاں بنے رہے ، سُنو
جو روگ پیدا ہوں کہیں پہ اور پھر پلیں کہیں

کوئی بتاؤ اِسم جس سے دل کو حوصلہ رہے
یا ایسا ہو کہ سر سے یہ مصیبتیں ٹلیں کہیں


فرحت عباس شاہ

****************

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔