Wednesday 27 January 2016

isi se hota hai zaahir jo haal dard ka hai

0 comments
اسی سے ہوتا ہے ظاہر جو حال درد کا ہے
سبھی کو کوئی نہ کوئی وبال درد کا ہے

سحر سسکتے ہوئے آسمان سے اتری
تو دل نے جان لیا یہ بھی سال درد کا ہے

اب اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں رکھنا
یہ بات طے ہوئی لیکن سوال درد کا ہے

یہ دل، یہ اجڑی ہوئی چشمِ نم، یہ تنہائی
ہمارے پاس تو جو بھی ہے مال درد کا ہے

یہ جھانک لیتی ہے دل سے جو دوسرے دل میں
مری نگاہ میں سارا کمال درد کا ہے

اسیر ہے مری شاخِ نصیب پت جھڑ میں
مِرے پرندہء دل پر بھی جال درد کا ہے

بدل گئے مرے حالاتِ دل تو کیا ہوگا
یہ ایسی بات ہے جس میں زوال درد کا ہے

دلوں پہ زندہ تھا دل ہی نہیں رہے ہیں یہاں
اب ایسے شہر میں جینا محال درد کا ہے

جمود توڑتی آنکھیں سکوت توڑتے لب
یہ ناک نقشہ یہ سب خدّو حال درد کا ہے

سنا ہے تیرے نگر جا بسا ہے بیچارہ
سناؤ کیسا وہاں حال چال درد کا ہے

وگرنہ خار و خزاں کے سوا نہیں کچھ بھی
بس ایک پھول مری ڈال ڈال درد کا ہے

اکھڑتی جاتی ہے دیوانہ وار ایڑیوں سے
زمینِ جاں پہ ہماری دھمال درد کا ہے

فقیر بیٹھے ہوئے ہیں بہت سکون سے ہم
تری جدائی کی کٹیا ہے پیال درد کا ہے

کہ ہم نے کس کے لئے جاں عذاب میں ڈالی
ہمیں تو آج بھی خود سے ملال درد کا ہے

ہمارے سینے میں دل کی جگہ یہ پتھر ہے
اسی لیے تو یہاں ایسا کال درد کا ہے

تمہاری چاہ نے ڈھونڈی تھی میری آبادی
یہ گھاؤ سینے کی بستی میں کھال درد کا ہے

یہ عشق ہے اسے تیمار داریاں کیسی
اسے نہ پوچھ یہ بوڑھا نڈھال درد کا ہے

ہم اس کو دیکھتے جاتے ہیں روتے جاتے ہیں
یہ صحنِ شب میں پڑا ہے جو تھال درد کا ہے

نہ تم میں سکھ کی کوئی بات ہے نہ مجھ میں ہے
تمہارا اور مِرا ملنا وصال درد کا ہے

ابھی کہیں سے کڑی کوئی بھی نہیں ٹوٹی
ابھی تو سلسلہ سارا بحال درد کا ہے

مِری طرف سے گزر کا خیال رہنے دو
یہ راستہ بھی بہت پائمال درد کا ہے

دل و نظر تو رہیں گے سکون میں لیکن
شبِ فراق مجھے احتمال درد کا ہے

کسی کا درد ہو اپنا سمجھنے لگتے ہیں
ہمارے پاس یہی کچھ مآل درد کا ہے

یہیں کہیں مِرے اندر کوئی تڑپتا ہے
یہیں کہیں پہ کوئی یرغمال درد کا ہے

اسی لیے تو ہمیں عجز کا قرینہ ہے
ہماری ذات میں جاہ و جلال درد کا ہے

وہیں کہیں کسی گھاٹی میں تیرا ہجر بھی ہے
مِرے لہو سے جہاں اِتّصال درد کا ہے

نفس نفس پہ پڑے آبلوں سے لگتا ہے
نہ جانے روح میں کب سے اُبال درد کا ہے

یہی تو فرق ہے ان میں اور آپ میں فرحت
کسی کو اپنا کسی کو خیال درد کا ہے

کسی نے پوچھا کہ فرحت بہت حسین ہو تم 
تو مسکرا کے کہا سب جمال درد کا ہے

فرحت عباس شاہ
(سوال درد کا ہے)



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔