Tuesday 26 January 2016

ye ajeeb meri muhabbaten

0 comments
یہ عجیب میری محبتیں

کوئی پوچھ لے تو میں کیا کہوں
اُسے کیا بتاؤں
یہ روز و شب تو جنم جنم پہ محیط ہیں
مرے زخم زخم دل و نظر
مجھے اس جنم میں نہیں ملے
میرے رتجگے میرے ہمسفر
میرے ساتھ آج نہیں چلے
یہ مہیب وحشتِ فکر جو
میرے نقش نقش کی روح ہے
کوئی بے ثبات بیاں نہیں
یہ تو آتماؤں کا عکس ہے
یہ تو دیوتاؤں کا دھیان ہے
یہ تو جانے کیسی
صدی صدی کی اذیتوں کا گیان ہے
یہ عجیب میرے غم و الم
یہ نصیب سنگِ سیاہ پر
یہ ورق ورق پہ گڑے قلم
یہ کڑا حصار نیا نہیں
میرا انتظار قدیم ہے
میرا اس سے پیار قدیم ہے
یہ عجیب میری محبتیں

فرحت عباس شاہ


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔