Wednesday 10 February 2016

kayenaati shaoor ka shayer : tehreer-anees naagi

1 comments
کائناتی شعور کا شاعر
(تحریر: انیس ناگی)

فرحت عباس شاہ کا پانچواں شعری مجموعہ اس کے اندر موجزن جذباتی ہیجان کا سراغ دیتا ہے۔یکے بعد دیگرے اس کے شعری مجموعوں کی اشاعت اس کے تخلیقی وفور کی شہادت ہے۔ شاعری کے آغاز میں ہر شاعر اسی طرح کے وفور سے دو چار ہوتا ہے جو بتدریج تھم جاتا ہے اور جذباتی شدت اور محبت کے نغمے اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ فرحت عباس شاہ کی شاعری صرف جذبات پر ہی اعتماد نہیں کرتی‘ یہ جذباتی صورتحال سے پیدا شدہ رویے سے اپنی تشکیل کرتی ہے۔ اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ فرحت عباس شاہ کی شاعری میں فروغ پانے کی صلاحیت ہے۔
گزشتہ دس پندرہ سالوں سے نوجوان شعراء کی نسل میں کوئی ایسا شاعر دکھائی نہیں دیتا جس کی شاعری مروجہ موضوعات سے گریز کے ذریعے کسی نئی شعری کائنات کا پتہ دیتی ہو۔ اب تو نئی شاعری بھی روٹین کی شاعری بنتی جا رہی ہے۔ کیوں کہ نئے شعرا نے قناعت کر کے اجتہاد کا در بند کر دیا ہے۔ پیہم تجربات ادب میں زندگی کے تغیرات کو سمونے کے لیے لازم ہیں ۔ اردو شاعری کی کلاسیکی اصناف میں تجربے کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی ہیئتیں اپنی حفاظت کرتی ہیں‘ مثال کے طور پر غزل میں نام نہاد تجربات زیادہ سے زیادہ لسانی ہیر پھیر یا کبھی کبھار موضوعاتی تبدیلی سے عبارت ہیں‘ وگرنہ تشکیل معانی کا قرینہ غالب کی غزل کے بعد تبدیل نہیں ہوا۔
ان کلاسیکی اور مروجہ اصناف سخن کے برعکس آزاد نظم شاعری میں معنوی تشکیل کا بہتر امکان ہے۔ اس سے آگے نثری نظم شاعر کو تخلیقی آزادی کا بہتر موقع فراہم کرتی ہے‘ یہ کلاسیکل آہنگوں کی بالا دستی کو شکست کت کے زبان کے نئے معنوں اور لسانی آہنگ کا امکان پیدا کرتی ہے۔ نئے شعراء میں خوش آئند بات آزاد اور نثری نظم کا فروغ ہے۔ اس اعتبار سے نئے شعراء میں فرحت عباس شاہ کا متیاز ہے کہ اس نے کم سے کم غزل لکھی ہے اور اپے جذباتی اظہار کو ایک ایسے شعری پیکر میں منتقل کیا ہے جو معنی کو کشادگی کی طرف لے جاتا ہے۔ فرحت عباس شاہ کا زیر نظر شعری مجموعہ اس کے بھرپور شعری عمل کا ایک حصہ ہے‘ جو یکے بعد دیگرے اس کے شائع ہونے والے شعری مجموعوں میں ظاہر ہوا ہے۔
فرحت عباس شاہ کی نظموں کا نمایاں عنصر ان کی جذباتی شدت اور اس کا براہ راست اظہار ہے۔ اس کے یہاں جذباتی شدت جوانی کے محض رکے ہوئے جذبات کی بجائے ایک اجتماعی قید وبند کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوے والی اعصابی صورتحال ہے جو بتدریج اس کی احساساتی کیفیات کو تصور کی تشکیل کی طرف لے جاتی ہے۔ اس عمل میں فرحت شاہ کو ایک سہولت یہ بھی ہے کہ وہ فلسفہ اور نفسیات کا طالب علم رہا ہے۔ اچھی شاعری محض احساساتی اور جذباتی نہیں ‘ یہ ایک نقطہ نظر اور سوچ کو جنم دیتی ہے‘ اور یہ کیفیت فرحت عباس شاہ کی بیشتر نظموں میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کی نظموں کا معنوی پیرہن مختلف تانوں بانوں سے تیار ہوتا ہے۔ اسے ماضی سے کٹنے کا تہذیبی احساس بھی ہے۔ وہ فرد میں بصارت کی کمی کو بھی محسوس کرتا ہے۔ اسے موجودہ حالات کے نرغے میں آئی ذات کی محدودیت کا بھی شعور ہے‘ اسے بڑے شہروں کے صنعتی کلچر سے پیدا ہونے والے تظلم کا بھی احساس ہے۔ فرحت عباس شاہ اس پر آشوب اور شکست دینے والے حالات سے دستبردار ی کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے کسی قدر جارہیت کے ساتھ مروجہ مابعد الطبیعاتی نظام سے الجھتا ہوا اسے چیلنج کرتا ہے اور اس کی سب سے موثر مثال فرحت عباس شاہ کی طویل نظم ’’ خیال سو رہے ہو تم‘‘ ہے‘ جو معاصر انسان کے جذباتی فساد اور اس کی زیست میں معنویت کی شکست کا ایک نوحہ ہے۔
اس نظم میں فرحت عباس شاہ نے زبان کو آزادی سے استعمال کرتے ہوئے شعری لغت میں ہر طرح کے الفاظ اور تراکیب کے استعمال کی ترغیب دی ہے۔ جب کوئی شاعر نئی شعری لغت وضع کرتا ہے تو لا محالہ طور پر اسے اپنی جذباتی حالت میں اس طرح ضم کرتا ہے کہ وہ اپنی اجنبیت کو احساس کی تاثیر کے ذریعے ختم کر دیتا ہے۔
تین سالوں میں پانچ شعری مجموعوں کی اشاعت کا مطلب یہ نہیں کہ فرحت عباس شاہ نے اردو شعری روایت میں ناقابل شکست مقام پیدا کر لیا ہے‘ یہ اس کے شعری سفر کی ابتدا ہے بلکہ اسکا یہ شعری مجموعہ اس سفر کے آغاز کا اچھا شگون ہے۔

انیس ناگی


jadeed tar nasal ka jadeed tareen shayer : tehreer-ahmed nadeem qasmi

0 comments
جدید تر نسل کا جدید ترین شاعر
(تحریر : احمد ندیم قاسمی)

فرحت عباس شاہ جدید تر نسل کا جدید ترین شاعر ہے۔پرانی نسل کو جرات سے کام لے کر تسلیم کر لینا چاہیے کہ غلامی سے آزادی تک کا سفر مکمل کرنے کے بعد وہ خود آسودگی میں ڈوب گئی اور نئی نسل کی تہذیبی تربیت کی ضرورت نہیں سمجھی۔ یہی سبب ہے کہ جدید تر نسل خود کو ہاری ہوئی نسل قرار دیتی ہے اور فرحت عباس شاہ اسی نسل کا نمائندہ ہے۔ نئی نسل یہ سوچ کر شدید بے بسی محسوس کرتی ہےکہ ’’ ہم ایک طے شدہ تقدیر میں مقید ہیں‘‘ اور ایک ’’مہیب وحشت فکر‘‘ میں مبتلا ہیں۔ اس نسل کے دوسرے افراد کی طرح فرحت عباس شاہ سوچتا ہے کہ سب کچھ لا حاصل ہے۔۔۔۔ اور حاصل کا یہ دکھ ہمارے مزاج کا ایک ناگزیر حصہ ہے سو ہنسنا تک بھی خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ’’باہر کبھی ہنسے بھی تو گھر آ کے رو پڑے
فرحت عباس شاہ نے اپنے پہلے مجموعہ کلام میں نئی نسل کے احساسِ تنہائی‘ خوف‘ تھکن‘ بے بسی‘ تلخی اور کرب کی حساس نمائندگی کی تھی اور اب اپنے دوسرے مجموعے ’’آنکھوں کے پار چاند‘‘ میں بھی وہ اپنی نسل کو بیشتر مفلوج و شکستہ بازوئوں والی نسل قرار دیتا ہے۔ معاشرت و معیشت ‘ نیز عقیدوں اور نظریوں کے مروجہ جبر کے تناظر میں نئی نسل کا یوں سوچنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے مگر مجھے اس نہایت حساس اور ذہین نوجوان شاعر کے کلام میں آرزو کی پو اور امید کی شمع کی مسلسل تلاش رہی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہماری نوجوان نسل کی سوچوں میں دھند اور دھوئیں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ آخر مجھے وہ اجالا دستیاب ہو ہی گیا۔ محبت کے ذکر میں فرحت عباس شاہ کے ہاں رجائیت کی پو پھوٹتی نظر آئی اور امکان کی شعاع دھند کو چیرتی دکھائی دی۔ اس کے اپنے الفاظ ہیں کہ ’’ محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے‘‘ ۔۔۔۔ اور آج کا سارا جھگڑا ذات اور بطون ذات ہی کا تو ہے۔ یوں مجھے فرحت عباس شاہ کی لفظیات میں جہاں ’’ سانس کا نیلا بدن‘‘ اور ’’ بینائی کی زخمی انگلیاں‘‘ میں اور چاند کو دیکھ کر اسے ڈار سے بچھڑ کر مر جانے والا پرندہ یاد آیا‘ وہیں میں نے اس کی غزلوں کی ردیفوں تک میں اس کے باطنی دکھ کو مجسم پایا۔ ’’ہم ہار گئے‘‘ اور ’’ آسماں زرد ہے‘‘ اور ’’ زندگی تھک گئی‘‘ اور ’’ آنکھیں بھیگ گئیں‘‘ مگر پھر میں نے اس کی بعض نظموں کے علاوہ اس کی غزلوں کے کنارے بھی چمکتے دیکھے۔
فرحت عباس شاہ نے جہاں یہ نشتر قسم کے شعر کہے ہیں 

دیتی ہے جب ذرا سی بھی آہٹ اذیتیں
ایسی خموشیوں میں سنائی دیا نہ کر
***************
یہ تو سچ ہے‘ چپ رہنے سے پاگل پن بڑھ جاتا ہے
لیکن پتھر کے اس شہر میں آخر کس سے بات کریں
***************
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بڑی دیر تک نڈھال رہے
***************
چاہے کوئی جیسا بھی ہم سفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
***************
کسی کے پاس بھی چہرہ نہیں مگر پھر بھی
ہر ایک شخص کے ہاتھوں میں آئنہ کیوں ہے
***************
میں کس کو پوچھنے نکلوں کسے تلاش کروں
قدم قدم پہ جدا ہو گیا کوئی نہ کوئی
***************

وہیں وہ اس انداز کے شعر بھی کہنے لگا جن کے حروف میں سے جستجو کا تسلسل اور خواہشوں کا جیتا جاگتا عمل جھانک رہا ہے

قافلے ریت ہوئے دشت جنوں میں کتنے
پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری ہے
***************
ہزاروں خواہشیں دل کے نہاں خانوں میں ہوتی ہیں
یہ بے آباد قصبے بھی کہاں ویران رہتے ہیں
***************
ہر ایک خار پہ ہنس ہنس کے پائوں دھرنا ہے
مسافتوں کے سمندر میں یوں اترنا ہے
***************
جسم تپتے پتھروں پر‘ روح صحرائوں میں تھی
پھر بھی تیری یاد ایسی تھی کہ جو چھائوں میں تھی

میری دعا ہے کہ فرحت اندھیرے سے روشنی کی طرف اور مردنی سے تمنا و آرزو کی طرف گہما گہمی کے ساتھ اپنا سفر کامیابی سے طے کرتا جائے کہ اس میں آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کی وافر اہلیت بھی ہے اور وہ تخلیقی وفور بھی ہے جس کے دم سے اس کے ہاں جذبے اور احساس کی نازک پرتوں کا اظہار بھی نہایت سہولت سے اور پھر انتہا درجے کی بے ساختگی کے ساتھ ہوا ہے۔

احمد ندیم قاسمی



Tuesday 9 February 2016

chalo bhaag jayen kaheen

0 comments
چلو بھاگ جائیں کہیں

فرحت ! چلو بھاگ جائیں کہیں
بارشیں جان لیوا اداسی سے مل کے
ہمیں مار ڈالیں گی
بہتر ہے ہم بھاگ جائیں کہیں
 جان لیوا اُداسی
جو برسوں سے اس تاک میں ہے کہ ساون ہو
اور وہ ہمیں بارشوں کی لگائی ہوئی آگ سے راکھ کر دے، اُڑا دے
مری مان لو بات ۔۔
فرحت !چلو بھاگ جائیں کہیں

فرحت عباس شاہ


Monday 8 February 2016

sehraa khareed laye hain : tabsira by ahmed nadeem qasmi

0 comments
صحرا خرید لائے ہیں
(تحریر: احمد ندیم قاسمی)

فرحت عباس شاہ کے دوسرے مجموعہ کلام ’’آنکھوں کے پار چاند‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے میں نے کہا تھا

 میری دعا ہے فرحت اندھیرے سے روشنی کی طرف اور مردنی سے تمنا و آرزو کی طرف گہما گہمی کے ساتھ اپنا سفر کامیابی سے طے کرتا جائےکہ اس میں آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کی وافر اہلیت بھی ہے اور وہ تخلیقی وفور بھی ہے جس کے دم سے اس کے ہاں جذبے اور احساس کی نازک سے نازک پرتوں کا اظہار بھی نہایت سہولت اور پھر انتہا درجے کی بے ساختگی کے ساتھ ہوا ہے۔

فرحت عباس شاہ کا چوتھا مجموعہ دیکھنے کے بعد مجھے یہ اطمینان حاصل ہوا ہے کہ میری اس دعا نے قبولیت کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور فرحت کی شاعری میں وہ ستارے نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں جو اندھیرے کی مکمل نفی کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اس کا تیسرا مجموعہ کلام میری نظر سے نہیں گزرا البتہ اس چوتھے مجموعے کے ابتدائیہ نگار اظہر غوری صاحب کی تحریر سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ تیسرا مجموعہ فرحت کی غیر عروضی نظموں پر مشتمل ہے اور میں شاعری اور نثر کے درمیان ’’رِدم‘‘ کے امتیاز کو برقرار رکھنے کا حامی ہوں اور عروض کو ’’ ردم‘‘ کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ’’صحرا خرید لائے ہیں‘‘ کے آخری حصے میں بھی فرحت شاہ نے ’’ بے مہار‘‘ کے عنوان سے ’’غیر عروضی نظمیں‘‘ شامل کر رکھی ہیں‘ مگر میں اس موقعے پر اس کے سوا کچھ عرض نہیں کروں گا کہ جب فرحت شاہ غزل اور پابند نظم اور آزاد نظم اور کافی اور دوھا کہنے پر قادر ہے تو اسے اپنے نثر پاروں کو اپنے شعری مجموعے میں شامل کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی۔ چلئے اسے بھی فرحت شاہ کے اس تخلیقی وفور کا کیا دھرا قرار دے دینا چاہیے جس نے اس کے باطن میں تلاطم بپا کر رکھا ہے۔
نئی نسل کے احساسِ تنہائی‘ خوف ‘ تھکن‘ تلخی‘ کرب اور بے بسی کی عکاسی فرحت شاہ کے دوسرے مجموعوں کی طرح ’’ صحرا خرید لائے ہیں‘‘ میں بھی جگہ جگہ موجود ہےمگر اس دھند اور دھوئیں میں محبت کا وہ اجالا بھی موجود ہےجس نے کئی برس قبل فرحت سے یہ کہلوایا تھا کہ ’’ محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے‘‘ یقیناً اس نئے مجموعے میں بھی ’’ میں تھک کے چھائوں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے‘‘ کا کرب موجود ہے مگر محبت کا آفتاب یہاں بھی روشن ہے اور اس لحاظ سے زیادہ ہمہ جہتی سے روشن ہے کہ فرحت شاہ کی تلاش و جستجو کا رخ اب بظاہر تصوف کی طرف ہو رہا ہے اور یہ اس لحاظ سے خوشگوار ہے کہ ملائیت کی منفیت کے مقابلے میں تصوف اثبات کا نمائندہ ہوتا ہے اور یہ صوفی ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ کہہ سکے

خدائی صدقے کی انسان پر سے

اول تو اس مجموعے میں شامل کافیاں گواہ ہیں کہ آج کل فرحت شاہ کا سفر کس منطقے میں ہو رہا ہے۔ پھر خود اس نے اس مجموعے کے آغاز میں اعتراف کیا ہے کہ:

کوئی ہستی ہے جو میرا رخ کسی مخصوص سمت کی طرف‘ کسی مخصوص منزل کی طرف پھیر رہی ہے اور خاص طور پر جن دنوں میں اس کتاب کے تیسرے حصے (یعنی کافیوں والے حصے) کی زد میں تھا‘ مجھے لگ رہا تھا کہ اب تو بالکل ہی بے بس ہوں اور قلم کا کوئی بھی رخ میرے اختیار میں نہیں۔ 

یہ بے بسی بہت با معنی ہے۔ یہ اس ابدی حیرت والی بے بسی ہے جو تلاش حقیقت کے سفر کی ایک نہایت بلیغ منزل ہے۔ اس نکتے کی تائید مزید میں فرحت شاہ کی وہ غزل پڑھئے جس کی ردیف ہے۔۔ معنی دے

اپنے ادراک کا ابہام سمجھ
باطنِ حق سے صدا معنی دے
پردہ ہائے سرِ ہر تارِ نفس
ایک اک کر کے اٹھا‘ معنی دے
حرفِ حق بول سرِ شہرِ یزید
رہ نہ بے جرم و خطا‘ معنی دے

فرحت شاہ اس حقیقت شناسی کے باوجود کہ

تمہاری ہمسفری کے طویل عرصے میں
کہیں کہیں مجھے اپنا خیال رکھنا تھا

واضح الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ

جو جو دشمن میرے بس سے باہر تھا
میں نے اس کو اپنے اندر مار دیا

اس شعر اور اس نوع کے دوسرت اشعار کو فرحت عباس شاہ کے نئے سفر کے سنگ ہائے میل قرار دینا چاہیے۔ یہ وہی سفر ہے جس کا آغاز فرحت شاہ نے اس مجموعے کے کافیوں والے حصے کے ابتدائی شعر میں کیا ہے:

ہم اپنی طرز کے جوگی ہیں اس زمانے میں
خود اپنے دل میں پڑے ہیں بنا کے ویرانے

اور میں اپنے اس مختصر تاثر کا اختتام اپنے اس نہایت عزیز اور ذہین اور منفرد شاعر کی اس بھرپور کافی کے ایک اقتباس سے کرتا ہوں جس کا عنوان ہے
خوشیاں کرو تلاش۔۔۔اس کافی میں وہ کہتا ہے

نا پتھر نا کندن خوشیاں
نا کپڑے نا تن
نا باہر کی لیپا پوتی
نا اندر کا من
نا مسجد نا مندر خوشیاں
نا موسم نا منظر
نا شاہی نہ پیر فقیری
نا کوئی دشت سمندر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا اپنے نا پیارے خوشیاں
نا کمزور سہارے
نا قسمت نہ بخت مقدر
نا سورج نا تارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس اس یار کی چاہ مسرت
سچ اسی کی چاہ
سکھ بس ایک پناہ میں اس کی
خوشی اسی کی راہ
باقی سب کچھ لاش او لوگو
باقی سب کچھ لاش
خوشیاں کرو تلاش او لوگو
خوشیاں کرو تلاش

احمد ندیم قاسمی

کتاب: شاعر
مرتب: علی اکبر منصور





farhat abbas shah "aik naye ehed ka aaghaaz" : Munir niazi

0 comments
فرحت عباس شاہ ‘‘  ایک نئے عہد کا آغاز’’

ہر عہد میں ایک شاعر ایسا ہوتا ہے جو گزرے ہوئے بڑے شعراء کے ورثے کا امین ہوتا ہے قدیم روحِ شعر اپنا وارث تلاش کرتی ہے اور جس عہد میں جو راست فکر شاعر اسے مل جاتا ہے اس سے وہ اس طرح ملتی ہے جیسے کوئی دیر سے بچھڑے ہوئے محبوب سے ملتا ہے۔ ان دونوں کے وصال سے جو شاعری پیدا ہوتی ہے وہی اس عہد اس دور کی شاعری ہوتی ہے اور بڑی شاعری ہوتی ہے فرحت عباس شاہ کی شاعری اس قدرتی اور فطری عمل کا ثمر ہے اسی لیے اثر انگیز ہے اور عوام میں خوشبو کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔
فرحت عباس شاہ اس عہد کا ایسا شاعر ہے جدید شاعروں میں جس کا کوئی ثانی نہیں اس کا جتنا کلام میں نے پڑھا اور سنا ہے وہ سب سے جداگانہ  اور اثر انگیزی میں بہت زیادہ ہے۔’’خیال سو رہے ہو تم‘‘، ’’صحرا خرید لائے ہیں‘‘، ’’اداسی ٹھہر جاتی ہے‘‘ اس کی کتابوں کے صرف نام ہی ایسے ہیں کہ میں کئی کئی دن ان کے اندر رہتا ہوں‘  فرحت عباس شاہ اپنے شعروں اور نظموں میں الگ شہر بساتا ہے۔ الگ جہان آباد کرتا ہے۔ وہ نہ صرف گزرے ہوئے بڑے شعراء کے ورثے کا امین ہے بلکہ ایک نئے عہد کا آغاز بھی ہے۔
            
منیر نیازی

کتاب: شاعر
مرتب: علی اکبر منصور


Sunday 7 February 2016

پاکستانی معاشرہے کی تشکیل کے اسباب اور جناب عطاءالحق قاسمی

2 comments
فیسبُک کالم

********

پاکستانی معاشرہے کی تشکیل کے اسباب اور جناب عطاءالحق قاسمی

اس میں کوئی شک نہیں کہ دُنیا میں آئے دن ایسے اقدامات ہوتے رہتے ہیں جن سے طرح طرح کے سوالات جنم لیتے ہیں لیکن وطن ِ عزیز میں کیے جانے والے اقدامات سے صرف جوابات جنم لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پہ حالیہ ترقیاتی اقدامات سے ایسے ا یسے پُل پیدا ہو رہے ہیں جو اپنا جواب نہیں رکھتے، یا پھر میٹرو ٹرین کے ٹریک کی وجہ سے بے روزگار یا بےگھرھونے والوں کے ہر طرح کے احتجاج کا یہی جواب ملتا ہے کہ ساڈے ولوں جواب جے۔ اور جب ایک ہی روڈ کو بار بار تہ وبالا کرکے بھر سے بنانے کی ٹھان لی جاتی ہے اور ٹریفک پھر بھی مینیج نہیں ہوتی تو ہر یُوٹرن پر پھنسے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کی بھائی جان اسیں جواب ہی سمجھیے۔ ایک بے روزگار شاعر کسی کھاتے پیتے رشتے دار گھر منہ اُٹھا کے بذاتِ خود اپنے لیے رشتہ مانگنے چلا گیا جس کے جواب میں موصوف کو مسلسل اتنے جُوتے پڑے کہ حضرت بے ہوش ہوگئے۔ جب پانی کے چھینٹے مارے جانے کے بعد ہوش میں آئے تو فورا" ہی بولے کہ انکل کیا کہتے ہیں آپ ، میں رشتے سے جواب سمجھوں؟
پاکستانی معاشرہ کیوں تشکیل دیا گیا؟ میرے خیال میں تو یہ سوال ہی غلط ہے کیوں کہ یہ تشکیل دیا نہیں گیا بلکہ تشکیل پا گیا ہے۔ جس طرح کوئی اچانک کھپ یا رولا پا جاتا ہے ، رنگ میں بھنگ پا جاتا ہے یا پھر دودھ میں پانی۔ اور جہاں تک میری دانشِ بے پایاں فہم و ادراک کے گھوڑے دوڑا سکتی ہے یہی نظر آتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس لیے تشکیل پایا کہ یہاں اُسترے، قینچیاں اور بلیڈ تشکیل پا سکیں۔ نہ صرف تشکیل پائیں بلکہ بڑے استرے جب چاہیں چھوٹے اُستروں کاناشتہ، لنچ یا ڈنر فرما لیں۔ 
یا یہاں کے شہروں ، دیہاتوں اور جنگلوں میں پائے جانے والے بندروں کے ہاتھوں میں ماچس تھمائی جا سکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ معاشرہ اس لیے تشکیل پا گیا ہو کہ یہاں یہاں کچھ نہ کچھ ضرور تشکیل پا جائے۔ کچھ نہ کچھ سے یاد آیا ، ھمارے ایک دوست جو کہ اپنی خوش قسمتی سے کامرس رپورٹر ہیں ، لاہور چیمبر آف کامرس کے ایک سابق صدر کے گھر پہنچ گئے ۔ خاطر توضع کے بعد جب اُن سے تشریف آوری کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمانے لگے کہ سردی بہت زیادہ پڑ رہی آپ کے ہاں کسی نہ کسی کو ضرور کچھ نہ کچھ ہوا ھوگا سوچا حال احوال ہی لے آوں ۔ 
بہت دیر تک غو ر و غص بلکہ غور و غصہ کرنے کے بعد اس بات کے بھی کافی امکانات دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ اس لیے تشکیل پایا ہو کہ یہاں ایک عدد تحریک ِ انصاف ظہور پذیر ہو ھمارے لاڈلے دوست اور رپورٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما عامر رضا کے ہاتھوں خوار ہو اور وہ اس کی دُھلائی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے۔ اگر آپ میری ان تمام دانشورانہ قیاس آرائیوں سے متفق نا ہوں تو پھر ایک آخری بات تو ایسی ہے کہ جس سے ہر متشکل و غیر متشکل کس و نا کس کو متفق ہونا ہی پڑے گا ۔ اور وہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس لیے تشکیل پایا کہ یہاں میاں ن لیگ پہلے وجود میں پھر اقتدار میں آئے اور پھر انتظار کرے کہ جیسے ہی ھمارے مایہ ناز ادیب اور مزاح نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کی ریٹائرمینٹ کو کافی مدت گُزر جائے یہ ان کو ہر دوسال بعد ایک نئی ملازمت سے نواز یں تاکہ ایک بار پھر ایک نیا پاکستانی معاشرہ تشکیل پا سکے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر کالم نگار اور ٹی وی اینکر کا ضمیر ، ضمیر شریف میں بدل جائے ۔ جس میں صوبے کے خادم اعلیٰ کوخدمتِ خود کے تمام وسائل اور ملک کے نادم اعلیٰ کے بلکہ نادم اعظم کو عظمت خود کے تمام فضائل بلا شرکتِ غیرے حاصل ہوں۔ اور جو کچھ اِ دھر اُدھر کہیں بچا کُھچا ہو وہ ٹرکل ڈاون ہو کے مالش اور پالش کا مرتبہ پا جائے۔ اپنے عطے بھائی سے کسی نے پُوچھا کہ تحریک انصاف والے آپ کو بہت زیادہ اور بہت گندی گالیاں دیتے ہیں آپ کو بُرا نہیں لگتا؟ تو جواب میں فرمایا کہ جس کی "دکان" چل رہی ہوتی ہے اسے کچھ بھی آتا بُرا نہیں لگتا۔ آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہیں نا۔ وہ آدمی بہت کچھ سمجھ گیا۔ ایک دفع ایک کالم نگارنے کسی اینکرسے پوچھا کہ تم یومیہ کتنا کما لیتے ہو ؟ اینکر نے جواب دیا، ، ، یہی کوئی دس سے پندرہ ھزار روپئے۔ ساتھ ہی پوچھنے لگا کہ تم بتاو؟۔ کالم نگارتھوڑا سا کھسیانا ہو کے بولا کہ یہی کوئی ہزار دو ہزار، ، کیونکہ میری دکان ذرا پیچھے ہے، باجی کیا کریں معاشرہ ہی ایسا ہے ۔ جس کی دکان ذرا ہٹ کے ہو اس کا تو مر کے خرچہ نکلتا ہے۔ اینکر پھر سوال داغ دیا کی عطے بھائی بھی تو کالم نگار ہیں وہ تو بہت کماتے ہیں؟ کالم نگار آنکھ مار کے بولا کہ ان کا کوئی ایک کام تھوڑا ہے بیچارے بہت محنت کرتے ہیں ۔ ان کی تو صرف زبان ہی تمہاری میری دکانوں سے زیادہ چلتی ہے۔ بھائی کیا کریں معاشرہ ہی ایسا ہو گیا ہے۔ اب یہاں چلتی کا نام گاڑی نہیں بلکہ میٹرو ہے۔

فرحت عباس شاہ