Wednesday 10 February 2016

jadeed tar nasal ka jadeed tareen shayer : tehreer-ahmed nadeem qasmi

0 comments
جدید تر نسل کا جدید ترین شاعر
(تحریر : احمد ندیم قاسمی)

فرحت عباس شاہ جدید تر نسل کا جدید ترین شاعر ہے۔پرانی نسل کو جرات سے کام لے کر تسلیم کر لینا چاہیے کہ غلامی سے آزادی تک کا سفر مکمل کرنے کے بعد وہ خود آسودگی میں ڈوب گئی اور نئی نسل کی تہذیبی تربیت کی ضرورت نہیں سمجھی۔ یہی سبب ہے کہ جدید تر نسل خود کو ہاری ہوئی نسل قرار دیتی ہے اور فرحت عباس شاہ اسی نسل کا نمائندہ ہے۔ نئی نسل یہ سوچ کر شدید بے بسی محسوس کرتی ہےکہ ’’ ہم ایک طے شدہ تقدیر میں مقید ہیں‘‘ اور ایک ’’مہیب وحشت فکر‘‘ میں مبتلا ہیں۔ اس نسل کے دوسرے افراد کی طرح فرحت عباس شاہ سوچتا ہے کہ سب کچھ لا حاصل ہے۔۔۔۔ اور حاصل کا یہ دکھ ہمارے مزاج کا ایک ناگزیر حصہ ہے سو ہنسنا تک بھی خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ’’باہر کبھی ہنسے بھی تو گھر آ کے رو پڑے
فرحت عباس شاہ نے اپنے پہلے مجموعہ کلام میں نئی نسل کے احساسِ تنہائی‘ خوف‘ تھکن‘ بے بسی‘ تلخی اور کرب کی حساس نمائندگی کی تھی اور اب اپنے دوسرے مجموعے ’’آنکھوں کے پار چاند‘‘ میں بھی وہ اپنی نسل کو بیشتر مفلوج و شکستہ بازوئوں والی نسل قرار دیتا ہے۔ معاشرت و معیشت ‘ نیز عقیدوں اور نظریوں کے مروجہ جبر کے تناظر میں نئی نسل کا یوں سوچنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے مگر مجھے اس نہایت حساس اور ذہین نوجوان شاعر کے کلام میں آرزو کی پو اور امید کی شمع کی مسلسل تلاش رہی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہماری نوجوان نسل کی سوچوں میں دھند اور دھوئیں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ آخر مجھے وہ اجالا دستیاب ہو ہی گیا۔ محبت کے ذکر میں فرحت عباس شاہ کے ہاں رجائیت کی پو پھوٹتی نظر آئی اور امکان کی شعاع دھند کو چیرتی دکھائی دی۔ اس کے اپنے الفاظ ہیں کہ ’’ محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے‘‘ ۔۔۔۔ اور آج کا سارا جھگڑا ذات اور بطون ذات ہی کا تو ہے۔ یوں مجھے فرحت عباس شاہ کی لفظیات میں جہاں ’’ سانس کا نیلا بدن‘‘ اور ’’ بینائی کی زخمی انگلیاں‘‘ میں اور چاند کو دیکھ کر اسے ڈار سے بچھڑ کر مر جانے والا پرندہ یاد آیا‘ وہیں میں نے اس کی غزلوں کی ردیفوں تک میں اس کے باطنی دکھ کو مجسم پایا۔ ’’ہم ہار گئے‘‘ اور ’’ آسماں زرد ہے‘‘ اور ’’ زندگی تھک گئی‘‘ اور ’’ آنکھیں بھیگ گئیں‘‘ مگر پھر میں نے اس کی بعض نظموں کے علاوہ اس کی غزلوں کے کنارے بھی چمکتے دیکھے۔
فرحت عباس شاہ نے جہاں یہ نشتر قسم کے شعر کہے ہیں 

دیتی ہے جب ذرا سی بھی آہٹ اذیتیں
ایسی خموشیوں میں سنائی دیا نہ کر
***************
یہ تو سچ ہے‘ چپ رہنے سے پاگل پن بڑھ جاتا ہے
لیکن پتھر کے اس شہر میں آخر کس سے بات کریں
***************
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بڑی دیر تک نڈھال رہے
***************
چاہے کوئی جیسا بھی ہم سفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
***************
کسی کے پاس بھی چہرہ نہیں مگر پھر بھی
ہر ایک شخص کے ہاتھوں میں آئنہ کیوں ہے
***************
میں کس کو پوچھنے نکلوں کسے تلاش کروں
قدم قدم پہ جدا ہو گیا کوئی نہ کوئی
***************

وہیں وہ اس انداز کے شعر بھی کہنے لگا جن کے حروف میں سے جستجو کا تسلسل اور خواہشوں کا جیتا جاگتا عمل جھانک رہا ہے

قافلے ریت ہوئے دشت جنوں میں کتنے
پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری ہے
***************
ہزاروں خواہشیں دل کے نہاں خانوں میں ہوتی ہیں
یہ بے آباد قصبے بھی کہاں ویران رہتے ہیں
***************
ہر ایک خار پہ ہنس ہنس کے پائوں دھرنا ہے
مسافتوں کے سمندر میں یوں اترنا ہے
***************
جسم تپتے پتھروں پر‘ روح صحرائوں میں تھی
پھر بھی تیری یاد ایسی تھی کہ جو چھائوں میں تھی

میری دعا ہے کہ فرحت اندھیرے سے روشنی کی طرف اور مردنی سے تمنا و آرزو کی طرف گہما گہمی کے ساتھ اپنا سفر کامیابی سے طے کرتا جائے کہ اس میں آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کی وافر اہلیت بھی ہے اور وہ تخلیقی وفور بھی ہے جس کے دم سے اس کے ہاں جذبے اور احساس کی نازک پرتوں کا اظہار بھی نہایت سہولت سے اور پھر انتہا درجے کی بے ساختگی کے ساتھ ہوا ہے۔

احمد ندیم قاسمی



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔