Monday 2 May 2016

to kiu na aj yeh karen k phool len, phalen kaheen

2 comments
تو کیوں نہ آج یہ کریں کہ پھُول لیں ، پھلیں کہیں
سمجھ میں آگئی ہو میری بات تو چلیں کہیں

نظر نہ آئیں عشق کی طرح مہک  رہیں مگر 
تمام لوگ ڈھونڈتے پھریں یہ کونپلیں کہیں

تمہارے جیسے شاندار بے وفا ملے ہمیں
جو چاند کا چلن چُرائیں ،چاندنی ملیں کہیں

ہمارا دل کہ بانٹتا پھرے ہے خیر شہر میں 
چراغ ہوں تو ایسے ہوں، جو ہوں کہیں، جلیں کہیں

یہ ایسا عہد ہے کہ جس میں بے حسی رواج ہے 
کفِ ملال ہو اگر کہیں تو پھر ملیں کہیں

وہ روگ عمر بھر وبالِ جاں بنے رہے ، سُنو
جو روگ پیدا ہوں کہیں پہ اور پھر پلیں کہیں

کوئی بتاؤ اِسم جس سے دل کو حوصلہ رہے
یا ایسا ہو کہ سر سے یہ مصیبتیں ٹلیں کہیں

فرحت عباس شاہ


Sunday 1 May 2016

muj main bharka hai jo be wajha alao to hataa

3 comments
مجھ میں بھڑکا ہے جو بے وجہ الاؤ تو ہٹا
میرے مولامرے سینے سے دباؤ تو ہٹا

تُو بھلے آ میرے حلقے میں مگر قبل اس کے
مال و دولت کی طرف اپنا جھُکاؤ تو ہٹا

امن کی میز پہ بھی بیٹھ ہی جائیں گے مگر
اس سے پہلے یہ جلاؤ، یہ گھراؤ تو ہٹا

درد بھی ایسا ہے چالاک کہ کچھ مت پوچھو
اک ذرا نام ترا اس کو بتاؤ تو ہٹا

تُو تو پتھر میں عطا کرتا ہے روٹی روزی
اپنے  دریاؤں کا اک سمت بہاؤ تو ہٹا

پھر مرے دل کے اُجڑنے پہ سزا دے مجھ کو
چاند کے ماتھے سے ویرانی کا گھاؤ تو ہٹا

ورنہ اس روز ترا درد مجھے لے جاتا
وہ تو میں زور سے بولاکہ بچاؤ تو ہٹا

فرحت عباس شاہ