Saturday 30 January 2016

kook mere dil kook

1 comments
کُوک مرے دل کُوک

ہر سینے کونے چار
ہر کونے درد ہزار
ہر درد کا اپنا وار
ہر وار کی اپنی مار
ترے گردو پیش ہجوم
کئی سورج، چاند، نجوم
ہر جانب چیخ پکار
تری کوئی سنے نہ ہوک
کبھی کُوک مرے دل کُوک
ہر سینے آنکھیں سو
ہر آنکھ کی اپنی لو
پر پوری پڑے نہ ضو
کبھی پھوٹ سکی نہ پو
ترے صحن اندھیرا گھپ
تری اللہ والی چپ
ترے مٹی ہوگئے جو
تری کون مٹائے بھوک
کبھی کُوک مرے دل کُوک
ہر سینے سو سو جنگ
تری سانس کے رستے تنگ
ترا نیلا پڑ گیا رنگ
ترے نت نرالے ڈھنگ
لمحوں کے خنجر تیز
ہر دھار اذیت خیز
ترا نازک اک اک انگ
ترا اک اک تار ملوک
کبھی کُوک مرے دل کُوک
کبھی کُوک مرے دل کُوک

فرحت عباس شاہ


mera shaam saloona shah piya

1 comments
مرا شام سلونا شاہ پیا

کبھی جڑوں میں زہر اتار لیا
کبھی لبوں کے پیچھے مار لیا
اس ڈر سے کہ درد کی شدت میں
کہیں نکل نہ جائے آہ پیا
مرا شام سلونا شاہ پیا

ہمیں جنگل جنگل بھٹکا دو
ہمیں سولی سولی لٹکا دو
جو جی سے چاہو یار کرو
ہم پڑ جو گئے تری راہ پیا
مرا شام سلونا شاہ پیا

کہیں روح میں پیاس پکارے گی
کہیں آنکھ میں آس پکارے گی
کہیں خون کہیں دل بولے گا
کبھی آنا مقتل گاہ پیا
مرا شام سلونا شاہ پیا

تری شکل بصارت آنکھوں کی
ترا لمس ریاضت آنکھوں کی
ترا نام لبوں کی عادت ہے
مری اک اک سانس گواہ پیا

مرا شام سلونا شاہ پیا
ہمیں مار گئی تری چاہ پیا

فرحت عباس شاہ


saiyan zaat adhoori hai

4 comments
سائیاں ذات ادھوری ہے 

سائیاں ذات ادھوری ہے 
سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے
سائیاں مات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن
سائیاں گھات ادھوری ہے

سائیاں تیرے گاؤں میں
دکھ کی سیاہ فضاؤں میں
نا مانوس ہواؤں میں
لوگوں اور بلاؤں میں
قید ہوئے ہیں مدت سے
ہم نے کار دعاؤں میں

سائیاں رنج ملال بہت
دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت
پیار محبت کال بہت
اور اسی عالم میں سائیاں
گزر گئے ہیں سال بہت

سائیاں ہر سو درد بہت
موسم موسم سرد بہت
رستہ رستہ گرد بہت
چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر 
تیرا اک اک فرد بہت

سائیاں تیرے شہر بہت
گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت
اس پر تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں 
ہم کو ایک ہی پہر بہت

سائیاں دل مجبور بہت
روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بے نور بہت
اور لمحے مغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں
تو بھی ہم سے دور بہت

سائیاں راہیں تنگ بہت 
دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت 
خلقت ساری دنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہیں
بہلانے کے ڈھنگ بہت

سائیاں میرے تارے گم 
رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم 
آنکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گئے
راکھ میں ہوئے شرارے گم

سائیاں میری راتیں گم
ساون اور برساتیں گم
لب گم گشتہ باتیں گم
بینائی گم جھاتیں گم
جیون کے اس صحرا میں
سب جیتیں سب ماتیں گم

سائیاں جان بیمار ہوئی
صدموں سے دو چار ہوئی
ہر شے سے بیزار ہوئی
ہر اک سپنا سنگ ہوا
ہر خواہش دیوار ہوئی

سائیاں رشتے ٹوٹ گئے
سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے
تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھےجو
لٹے ہوئوں کو لوٹ گئے

سائیاں خواب اداس ہوئے
سرخ گلاب اداس ہوئے
دل بے تاب اداس ہوئے
دور سحاب اداس ہوئے
جب سے صحرا چھوڑ دیا
ریت سراب اداس ہوئے

سائیاں تنہا شاموں میں
چنے گئے ہیں باموں میں
چاہت کے الزاموں میں
شامل ہوئے ہے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں
اپنا نام نہ ناموں میں

سائیاں ویرانی کے صدقے 
اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے
لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں 
اپنی رحمانی کے صدقے

سائیاں میرے درد گھٹا
سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا 
سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں 
سائیاں اپنا آپ دکھا

سائیاں میرے اچھے سائیاں
سائیاں میرے دولے سائیاں
سائیاں میرے پیارے سائیاں
سائیاں میرے بیبے سائیاں

فرحت عبّاس شاہ


Friday 29 January 2016

Army chief ka bawaqar fesla : daily city 42 column : farhat abbas shah

0 comments
آرمی چیف کا باوقار فیصلہ
(ڈیلی سٹی 42 کالم : فرحت عباس شاہ)

****************

دُنیا کے بہت سارے دانشوروں کو یہ سُن کر مایوسی ہوئی کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مدت ِ مُلازمت میں توسیع سے انکار کردیا ہے۔ کتنی بد نصیبی کی بات ہے ہم ایسے دور میں سانس لے رہے جب ہرطرف حصول ِ توسیع جائداد سے لیکر حصولِ توسیع اختیار و اقتدار کے لیے مارے مارے پھرنے والے لوگ کہیں سے انکار سُنتے ہیں تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا۔ حالانکہ پوری دُنیا میں اصول و قوائد بنائے ہی اسی لیے جاتے ہیں کہ ہر انسان اپنی ناک کی حد تک آزادی کا لطف اُٹھائے اور جہاں سے کسی دوسرے کی حد شروع ہو وہاں بریک لگا دے ۔ جنرل راحیل شریف نے جس وقار کے ساتھ اپنے عہدے کی باگ ڈور سنبھالی اور جس طرح ایک خالص سپاہی کی طرح اپنے پیشہ ورانہ فرائض سنبھالے اسی معتبر طریقے سے اپنے ٹائم پر ریٹائرمینٹ کا اعلان کیا ہے۔ اس سے نہ صرف اُن کی ذاتی عزت میں اضافہ ہوا ھے بلکہ پاک افواج کے ادارے کی ساکھ میں چار چاند لگے ہیں۔
بریگیدئر حامد سعید نے اپنی کتاب ، " سیاست، ریاست اور قیادت " میں پاکستان کے اندر لگنے والے مارشل لاز کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک کے بیشتر سیاستدان اور اُن کے چہیتے دانشور جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو واویلا مچاتے ہیں کہ اگر آرمی نے اقتدار نہ سنبھالا تو ملک کو انتہائی خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ اور جب آرمی ملک کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تو شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ آرمی کا کام تو سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ 
بنیادی بات یہی ہے کہ ملک میں سیاسی صورتحال بگاڑنے میں کسی نہ کسی زاویہ سے سیاستدان ہی سرگرم عمل پائے گئے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں شیخ رشید صاحب فرما رہے تھے کہ اگرچہ آرمی چیف کا ایکسٹینشن نہ لینے کا فیصلہ اُن کی ذات اور ادارے کے لیے بہت بہتر ہے لیکن ابھی ملک کو اُن ضرورت ہے۔ میرے خیال میں ھمارے ملک کو اس وقت سب سے زیادہ قوائد و ضوابط کی پابندی کرنے کی مثالیں سیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ایسے بے ربط ، بے قائدہ اور بے اصول معاشرے میں بدلتے جا رہے ہیں جس کی کوئی کل سیدھی ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہم اپنے فرائض اور ذاتی دلچسپی میں فرق کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں۔ قومی مفاد بھی ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھتا نظر آتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر ملک کا اتنا اہم عہدیدار اصولی فیصلہ کرتا ہے اور ذاتی دلچسپی یا کچھ احباب کی ذاتی رائے پر ادارے کے قوائد اور عزت کو ترجیح دے رہا ہے تو یہ نہایت خوش آئیند ہے بلکہ ھماری اپنے ملک کے بارے میں خوش امیدی کو تقویت دینے والا ہے

آخر میں تین شعر آپ کی نذر 

لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے

راستوں پر گھاس اُگ آئی اگر
کون لوٹے گا سمندر پا ر سے

کاٹتا ہے دُشمنِ چالاک اب
گردنوں کو گردنوں کی دھار سے


Thursday 28 January 2016

sari dunia se kata hota hai

1 comments
ساری دنیا سے کٹا ہوتا ہے
جس کا ملبوس پھٹا ہواتا ہے

ہم جو سو کر بھی اٹھیں تو فرحت
جسم دردوں سے اٹا ہوتا ہے

وقت اچھا ہو تو ہر اک پتھر
میرے رستے سے ہٹا ہوتا ہے

وہ مجھے ملتی ہے جب آئندہ
پیار کچھ اور گھٹا ہوتا ہے

بات جب ہوتی ہے یک جہتی کی
شہر کا شہر بٹا ہوتا ہے

فرحت عباس شاہ


aye hain chalo kuch to mere kaam kinaray

0 comments
آئے ہیں چلو کچھ تو مرے کام کنارے
میں آج سے کرتا ہوں ترے نام کنارے

بڑھنے نہیں دیتے اسے اک گام کنارے
دریا کے لیے ہوتے ہیں الزام کنارے

دریا سے لگا بیٹھے ہیں دل جب سے دوانے
تب سے انہیں لگتے ہیں در و بام کنارے

اشکوں میں ستاروں کی چمک دیتی ہے پہرا
آنکھوں میں اتر آتے ہیں جب شام کنارے

لہروں کو اگر حَد میں نہ رکھیں گے تو فرحت
کر دوں گا میں آئندہ سے نیلام کنارے

فرحت عباس شاہ


tera wajood to mera gumaan doob gya

0 comments
ترا وجود تو میراگمان ڈوب گیا
افق میں دور کہیں آسمان ڈوب گیا

بھری ہیں جس طرح آنکھیں ہماری اشکوں سے
ہمیں تو لگتا ہے سارا جہان ڈوب گیا

ہوا سے رابطہ کرنے کی دیر تھی اور پھر
سمندروں میں مرا بادبان ڈوب گیا

ترا خیال ابھرتا نہیں لبوں سے مرے
مری پناہ میں مرا سائبان ڈوب گیا

یہیں کہیں کوئی رویا ہے بیٹھ کر فرحتؔ
یہیں کہیں پہ تمہارا نشان ڈوب گیا

فرحت عباس شاہ


joonhi basti main kaheen se bhi muje dar aya

0 comments
جونہی بستی میں کہیں سے بھی مجھے ڈر آیا
رات بھر خوف کی چوکھٹ پہ بسر کر آیا

ایک احساس کہ لوٹ آیا ہوں غم خانے میں
اور پھر اس پہ یہ لگتا ہے کہ میں گھر آیا

جس قدر ہجر سے بچتا ہوں میں جینے کے لیے
یہ ہمیشہ اسی شدت سے مجھے در آیا

میں کئی بار محبت میں تری جی اٹھا
میں کئی بار جدائی میں تری مَر آیا

میری قربانی بھی دیکھو کہ دکھوں کے بدلے
اپنی خوشیاں تری دہلیز پہ ہوں، دھر آیا

جانے کیونکر مجھے مصلوب کیا جاتا ہے
جانے کیوں نیزے پہ ہر بار مرا سر آیا

فرحت عباس شاہ


itna markooz hon kahani per

0 comments
اتنا مرکوز ہوں کہانی پر
چونک جاتا ہوں ہر نشانی پر

میں نہیں چاہتا کہ دنیا کو
رحم آئے مری جوانی پر

میرے بس میں جو ہو تو حیف لکھوں
ظلم اور ظلمتوں کے بانی پر

میں نے اک بار دل لگایا تھا
گھر بنایا تھا ایک پانی پر

جب ترا دل مرے گا فرحت جی
کون روئے گا آنجہانی ہر

فرحت عباس شاہ


youn sajaa gham meri peshaani per

0 comments
یوں سجا غم مری پیشانی پر
جس طرح چاند کوئی پانی پر

خوف آیا تھا مجھے پہلے پہل
اب تو ہنس دیتا ہوں ویرانی پر

ہو گئی ہے مجھے اب عادت سی
غصہ آجاتا ہے آسانی پر

اس لیے کرتا نہیں عقل کی بات
لوگ خوش ہوتے ہیں نادانی پر

اب تو جنگل بھی کئی بار یہاں
رو پڑے حالتِ انسانی پر

فرحت عباس شاہ


azal abad badnaam suhaagan

0 comments

اَزل اَبد بدنام سہاگن
تنہائی کی شام سہاگن

جیت سکی نہ دل ساجن کا
ہوں کتنی ناکام سہاگن

میں داسی ہوں اپنے پیا کی
نیچ، کنیز، غلام سہاگن

سیج پہ گُل کی بن ساجن کے
کب آیا آرام سہاگن

پریتم ہی ہے سب کچھ تیرا
رب، رحمان اور رام سہاگن

تم نے کیوں دنیا سے چھپ کر
دل سے کیا کلام سہاگن

سدا رہے سیندور سلامت
سکھ پاؤ ہر گام سہاگن

فرحت عباس شاہ


jagna raat bhar udasi main

0 comments
جاگنا رات بھر اداسی میں
اور کرنا سفر اداسی میں

شام ہوتے ہی جانے کیوں میرا
ڈوب جاتا ہے گھر اداسی میں

چھوڑو ایسی بھی کوئی بات نہیں
کوئی جاتا ہے مر اداسی میں

روزکے روز پینے والوں پر
مختلف تھا اثر اداسی میں

جانے کیا بات دل میں ہوتی ہے
کھلا رہتا ہے در اداسی میں

پھر تمہیں فون کی اجازت ہے
یاد آؤں اگر اداسی میں

اس نے بھی جان بوجھ کر اپنی
مجھ کو دی ہے خبر اداسی میں

میں تو رہتا ہوں بے نیاز بہت
اس کو لگتا ہے ڈر اداسی میں

لگنے لگتے ہیں مجھ کو تم جیسے
سارے شمس و قمر اداسی میں

فرحت عباس شاہ


main sunata hon kahani moat ki

0 comments
میں سناتا ہوں کہانی موت کی
میں نے دیکھی ہے جوانی موت کی

سیدھا ہو جاتا ہے دل کے آر پار
ہجر بھی تو ہے نشانی موت کی

باقی سب کچھ دیکھ لیتا ہوں مگر
عشق اور اک ناگہانی موت کی

اور اک شکوہ سلانا ہے وہاں
میں نے اک صف ہے بچھانی موت کی

ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں یہاں
ہر طرف رُت ہے سہانی موت کی

فرحت عباس شاہ


Wednesday 27 January 2016

dil k andar jan se pyaray ki tarah

0 comments
دل کے اندر جاں سے پیارے کی طرح
غم کو بھی رکھا سہارے کی طرح

مرد کا آنسو تھا کیسی شان سے
آنکھ سے ٹپکا ستارے کی طرح

چپ رہا کرتا ہے میرے سامنے
سرد موسم کے نظارے کی طرح

بہہ نکلتا ہے محبت میں سدا
دل کسی دریا کے دھارے کی طرح

خواب میں اکثر بھٹکتا ہے کوئی
آدمی اک غم کے مارے کی طرح

فرحت عباس شاہ



yaad achanak koi kaam ajata hai

0 comments
یاد اچانک کوئی کام آجاتا ہے
روتے روتے اب آرام آ جاتا ہے

بل آجاتا ہے لوگوں کے ماتھے پر
جب بھی فرحت تیرا نام آجاتا ہے

ہم تو ابھی آغاز میں ہوتے ہیں مصروف
اور اچانک ہی انجام آجاتا ہے

خوشیاں ڈھونڈنے نکلا ہوا دیوانہ دل
لوٹ کے روزانہ ناکام آجاتا ہے

شہر میں اب کوئی بھی اگر سچ بولے تو
میرے ہی سر پر الزام آجاتا ہے

فرحت عباس شاہ


aa kisi roz kisi dukh pe ikathay royen

2 comments
آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں

جس طرح مرگ جواں سال پہ دیہاتوں میں
 بوڑھیاں روتے ہوئے بین کیا کرتی ہیں
جس طرح ایک سیاہ پوش پرندے کےکہیں گرنے سے
ڈار کے ڈار زمینوں پہ اتر آتے ہیں
چیختے شور مچاتے ہوئے کرلاتے ہوئے
اپنے محروم رویوں کی المناکی پر
اپنی تنہائی کے ویرانوں میں چھپ کر رونا
اک نئے دکھ کے اضافے کے سوا کچھ بھی نہیں
اپنی ہی ذات کے گنجل میں الجھ کر تنہا
اپنے گمراہ مقاصد سے وفا ٹھیک نہیں
قافلہ چھوڑ کے صحرا میں صدا ٹھیک نہیں
ہم پرندے ہیں نہ مقتول ہوائیں پھر بھی
آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں

فرحت عباس شاہ


shaam k paar koi rehta hai

0 comments
شام کے پار کوئی رہتا ہے

ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
شام کے پار کوئی رہتا ہے
جسکی یادوں سے بندھی رہتی ہے دھڑکن دل کی
اور اسے دیکھ کے سینے میں یہی لگتا ہے
جیسے ویرانے میں بیمار کوئی رہتا ہے
ہم بہت چپ بھی نہیں رہ سکتے
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
اور کہتے ہیں کہ اے زرد ادواسی والے
تم تو خاموش شجر ہو کوئی
اور جھونکے سے بھی ڈر جاتے ہو
صبح ہوتی ہے تو امید سے جی اٹھتے ہو
شام ہوتی ہے تو مر جاتے ہو
ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
شام کے پار کوئی رہتا ہے

فرحت عباس شاہ


dekh lena k kisi dukh ki kahani to nahi

0 comments
دیکھ لینا کہ کسی دُکھ کی کہانی تو نہیں
یہ جو آنسو ہیں، کہیں اُس کی نشانی تو نہیں

عشق اور درد سے بھر دیں ہیں کتابیں ہم نے
یہ جو سب کچھ ہے مری جان زبانی تو نہیں

جس طرح شہر سے نکلا ہوں میں بیمار ترا
یہ اُجڑنا ہے، کوئی نقل مکانی تو نہیں

جانتا ہوں کہ سرابوں میں گھرا ہوں یارو
دوڑ پڑتا ہوں مگر پھر بھی کہ پانی تو نہیں

بچھ گئی ہے تیرے ماتم کو جو اب قسمت سے
ہم نے یہ صف دلِ صحرا سے اُٹھانی تو نہیں

اُس نے چاہا ہے مُجھے اپنے خُدا سے بڑھ کر
میں نے یہ بات زمانے کو بتانی تو نہیں

یہ جو ہر موڑ پہ آ ملتی ہے مُجھ سے فرحت
بدنصیبی بھی کہیں میری دیوانی تو نہیں

فرحت عباس شاہ


is ghareebi main guzara nahi hota mola

0 comments
اس غریبی میں گزارہ نہیں ہوتا مولا
غیب سے کوئی اشارہ نہیں ہوتا مولا

مجھ کو ہجرت کی کوئی راہ سجھا ہمت دے
مجھ سے یہ شہر گوارا نہیں ہوتا مولا

جب میں گھر جاتا ہوں انبوہِ مصائب میں کبھی
تجھ بنا کوئی سہارا نہیں ہوتا مولا

سوچتا ہوں تو ہر اک سمت سمندر ہی ملے
دیکھتا ہوں تو کنارہ نہیں ہوتا مولا

کچھ نہ کچھ پھر بھی کہیں کوئی کمی رہتی ہے
چاند ہوتا ہے ستارہ نہیں ہوتا مولا

فرحت عباس شاہ



ae dil e rayegaan udaas udaas

0 comments
اے دل رائیگاں اداس اداس
پھر رہے ہو کہاں اداس اداس

چاند اک عمر سے سفر میں ہے
آسماں آسماں اداس اداس

جب بھی دیکھا ہے جھانک کر دل میں
ہو گیا سب جہاں اداس اداس

زندگی کھیل ہے اداسی کا
ہم یہاں تم وہاں اداس اداس

پھرتے رہتے ہیں ہم محبت میں
مضمحل ناتواں اداس اداس

کیا اداسی سوا نہیں کچھ بھی
اے مرے لامکاں اداس اداس

رات بھر جاگتے ہو کیوں آخر
اس طرح میری جاں اداس اداس

اک طرف غم ہیں اک طرف خوشیاں
اور میں درمیاں اداس اداس

سارے کردار ہیں محبت کے
داستاں داستاں اداس اداس

یہ وہی ہیں ہمارے فرحت جی
شاعرِ بے کراں اداس اداس

ہم سے حساس لوگ فرحت جی
رہ رہے ہیں یہاں اداس اداس

فرحت عباس شاہ


mera intizar qadeem hai

0 comments
مرا انتظار قدیم ہے
مرا تم سے پیار قدیم ہے

مرے پھوٹے ہوئے نصیب پر
ترا اختیار قدیم ہے

مرے ساتھ دکھ میں ہے آسماں
مرا سوگوار قدیم ہے

فرحت عباس شاہ


gum naam deyaron main safar kiu nahi kartay

1 comments
گمنام دیاروں میں سفر کیوں نہیں کرتے
اجڑے ہوئے لوگوں پہ نظر کیوں نہیں کرتے

یہ خواب یہ خوشیوں بھرے ہنستے ہوئے یہ خواب
یہ خواب مرے دل پہ اثر کیوں نہیں کرتے

کیوں آپ اٹھاتے ہو اداسی کے یہ اسباب
شاموں کے غلاموں کو خبر کیوں نہیں کرتے

فرحت عباس شاہ


das farhat shah asee ki kariye

0 comments
بُجھارت

دس فرحت شاہ اسیں کی کریے
ساڈا کوئی نہ لاوے مُل
اسیں نازاں پلّے ماپیاں دے
اَج گئے وٹیاں وچ رُل
کئی چنگے بھیڑے رَل مل کے
سانوں رَج کے پھیرَن جھُل
اِنج ہاسے ساڈے ہوٹھاں تے
جیویں قبراں اُتّے پھُل
اِنج ہنجو ساڈی اکھیاں چوں
جیویں موگھے جاوَن کھُل

**************

دس فرحت شاہ اسیں کی کریے
ساڈے شہر اِچ کالی رات
ساڈے رشتے ناتے بھیڑیاں نل
ساڈی ٹھگاں نل گل بات
ساڈے سِر تے چھبّا گِٹکاں دا
ہتھّ چھلڑاں بھری پرات
ساڈے کپڑے آ آ سب ویکھن
ساڈی کوئی نہ پُچھے ذات
سانوں ڈر گلیاں وچ سَد مارن
سانوں حدشے پاون جھات

**************

دس فرحت شاہ اسیں کی کریے
سانوں چین نہ امن قرار
کوئی بھانبھڑ بلدائے ہر راتیں
ساڈے سینے دے وچکار
سانوں رستے کھاون اَمدے ہن
ساڈے ساہ گھُٹدِن گھر بار
ہِک پیڑ اجیہی چُپ کیتی
کرے لہو دے وچ سُرکار
ہِک یاد اساڈے دل دے وچ
جیویں دو دھاری تلوار

**************

دس فرحت شاہ اسیں کی کریے

فرحت عباس شاہ


shehr e veeran k darwazay se lag kar roye

0 comments
شہر ویران کے دروازے سے لگ کر روئے
اپنی پہچان کے دروازے سے لگ کر روئے

اتنا پتھر تھا مکاں اس کا کہ یوں لگتا تھا
ہم بیابان کے دروازے سے لگ کر روئے

اب تو ہم کتنی دفعہ آنکھوں کی عادت کے طفیل
غم کے امکان کے دروازے سے لگ کر روئے

اب اگر ٹوٹ گئے ہو تو شکایت کیسی
کیوں کسی مان کے دروازے سے لگ کر روئے

ہم ستائے ہوئے دنیا کے ترے بعد اکثر
تیرے احسان کے دروازے سے لگ کر روئے

کوئی آواز تسلی نہ دلاسہ نکلا
کیسے انسان کے دروازے سے لگ کر روئے

ہم نے کب دل سے کہا تھا بھری برساتوں میں
تیرے پیمان کے دروازے سے لگ کر روئے

دل کے دروازے پہ روئے تو لگا ہے فرحت
جیسے زندان کے دروازے سے لگ کر روئے

فرحت عباس شاہ


deeda e num main sukoon dhoondtay hain

0 comments
دیدہ نم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں
ہم ترے غم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں

شہر بھر سے ہیں مراسم اپنے
پھر بھی کم کم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں

ہم بہت ہیچ عزادار ترے
تیرے ماتم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں

لوگ گھبرائے ہوئے بارش کے
خشک موسم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں

آپ کے نام میں سکھ پاتے ہیں
آپ کے دم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں

تجھ سے ہم اس لیے ملتے ہیں بہت
ربطِ پیہم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں

فرحت عباس شاہ


an ginat be hisaab aan basay

0 comments
ان گنت بے حساب آن بسے
آنکھ اجڑی تو خواب آن بسے

دل عجب شہر ہے محبت کا
ہر گلی میں سراب آن بسے

اس سے اچھا تھا تم ہی رہ جاتے
تم گئے اور عذاب آن بسے

تیرے آنے کی رت سے پہلے ہی
کیاریوں میں گلاب آن بسے

آنکھ میں آ کے بس گئے آنسو
آنسوؤں میں سحاب آن بسے

فرحت عباس شاہ


khoo gaye ho yeh tum kahan jaanan

0 comments
کھو گئے ہو یہ تم کہاں جاناں
چار سو ہیں اداسیاں جاناں

ورنہ اک روز مل ہی جاتے ہم
عمر آئی ہے درمیاں جاناں

تم کو دھوکہ ہوا تھا بارش کا
رو دیا ہو گا آسماں جاناں

ہجر ہر موڑ پر کھڑا ہوگا
بھاگ کر جاؤ گے کہاں جاناں

شام ہوتے ہی چھیڑ دیتا ہے
دل مرا دکھ کی داستاں جاناں

دل نے پھر چھیڑ دی غزل کوئی
پھر طبیعت ہوئی رواں جاناں

ایک دنیا ہوئی ہے فرحت سے
تم بھی ہو جاؤ بد گماں جاناں

فرحت عباس شاہ


sanson ki hararat se pighal janay ka mosam

0 comments
سانسوں کی حرارت سے پگھل جانے کا موسم
آیا ہے تری آنچ میں جل جانے کا موسم

ہم کو نہیں معلوم تھا ہے عشق کا آغاز
یادوں میں کہیں دور نکل جانے کا موسم

لگتا ہے کہ چہرے پہ ترے ٹھہر گیا ہے
یک لخت کئی رنگ بدل جانے کا موسم

اے شہر تسلی ترے مشکور ہیں لیکن
آیا ہی نہیں دل کے سنبھل جانے کا موسم

یہ شہر تمنا بھی انوکھا ہے کہ اس پر
برسات میں بھی رہتا ہے تھل جانے کا موسم

چہرے پہ اگرچہ ہے مرے صبح کا اجالا
آنکھوں میں مگر شام کے ڈھل جانے کا موسم

فرحت عباس شاہ


ruttan badlan tu thora jeha pehle

0 comments
رُتاں بدلن توں تھوڑا جیہا پہلے

***********

ساڈے شہروں ٹر گئے چنگے دن
ساڈی عمراں لے گئے نال
اسیں جھلّی فکر جوانی دی
ساڈئ چٹّے ہو گئے وال
سانوں بھُل گیا رووَن دکھّاں تے
ساڈی اکھیں پے گیا کال
ساڈی اکھیں چانن ترس گِیاں
ساڈے لِسّے پے گئے خاب
ساتھوں رُس گئے موسم خوشیاں دے
سانوں لڑ گئے پھُل غُلاب
سانوں ساون چھوڑ کے ٹُر، نَس گئے
ساتھوں دُھپٗاں لَوِن حساب

۔۔۔

اسیں رُنّے ترینہہ وِچ اکھیں دے
سانوں ہَس ہَس ویکھن تھل
اسیں گوڈیاں بھار سفر کیتے
ساڈی رستیاں لاہ لئی کھَل
ساڈی فصلاں پانیاں مار دِتی
ساڈی وستی چل گئے ھَل

۔۔۔

اسیں کلّے رہ گئے جھوٹھیاں وچ
ساڈا لکھ کے لے گئے ناں
ساڈے پیریں جُتّی سفراں دی
ساڈے سِر تے دُھپ دی چھاں
چا ہتھّاں نال بنیریاں نوں
اسیں لبھدے پھرئے کاں

۔۔۔

اسیں ڈھاڈھے اوکھے ساہ لَو یے
ساڈے سینے دے وچ کِل
اِتھے دلّاں دے اندر زخم ہووَن
ساڈے زخماں اندر دل
کدیں آپے پٹیاں بَنھ بَویے
کدیں آپے بَویے چھِل

۔۔۔

ساڈے شہروں ٹر گئے چنگے دن 
ساڈی عمراں لے گئے نال

فرحت عباس شاہ
(دل دے  ہتھ مہار)


main us dholay di mang

0 comments
اکھّ اِچ جس دے تارے بھکھدے
ہتھ چانن دی ونگ
میں اُس ڈھولے دی منگ
رَتّے لال انار لُکا کے
لے گئے جس دا رنگ
میں اُس ڈھولے دی منگ
جِس دی خاطر کیتی دل نے
سبھّ دنیا نل جنگ
میں اُس ڈھولے دی منگ
جس دی خاطر عمراں ساری
کٹّی بھکھ تے ننگ
میں اُس ڈھولے دی منگ
جس دے بعد وچھوڑے والیاں
شاماں مارن ڈنگ
میں اُس ڈھولے دی منگ

فرحت عباس شاہ