Wednesday 27 January 2016

shehr e veeran k darwazay se lag kar roye

0 comments
شہر ویران کے دروازے سے لگ کر روئے
اپنی پہچان کے دروازے سے لگ کر روئے

اتنا پتھر تھا مکاں اس کا کہ یوں لگتا تھا
ہم بیابان کے دروازے سے لگ کر روئے

اب تو ہم کتنی دفعہ آنکھوں کی عادت کے طفیل
غم کے امکان کے دروازے سے لگ کر روئے

اب اگر ٹوٹ گئے ہو تو شکایت کیسی
کیوں کسی مان کے دروازے سے لگ کر روئے

ہم ستائے ہوئے دنیا کے ترے بعد اکثر
تیرے احسان کے دروازے سے لگ کر روئے

کوئی آواز تسلی نہ دلاسہ نکلا
کیسے انسان کے دروازے سے لگ کر روئے

ہم نے کب دل سے کہا تھا بھری برساتوں میں
تیرے پیمان کے دروازے سے لگ کر روئے

دل کے دروازے پہ روئے تو لگا ہے فرحت
جیسے زندان کے دروازے سے لگ کر روئے

فرحت عباس شاہ


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔