Monday 25 January 2016

فیسبک کالم : کارِدہشت گردی، مطالبان، الفائدہ اور "دا" عیش

0 comments
فیسبک کالم
********
کارِدہشت گردی، مطالبان، الفائدہ اور "دا" عیش


کسی امریکی نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ اب ہم کسی ملک پر فوجیں چڑھانے پر ترجیح دیں گے کہ اسے اندر سے منتشر اور کھوکھلا کردیں تاکہ ہینگ لگے نا پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ اپنی مشہور عالم تصنیف ،"کنفیشن آف این اکنامک ہِٹ مین" میں جان پرکنز انٹرنیشنلسٹوں کا طریقہ واردات بطریق احسن بیان کر چُکا ہے کہ کس طرح ملکوں کی فرسٹ لائن لیڈر شپ کا بوریا بستر گول کرکے سیکنڈ لائن لیڈر شپ کو اوپر لایا جاتا ہے تاکہ اس ملک کے قدرتی وسائل سے لیکر، اداروں ، کاروباری منڈ یوں اور سرمائے پر لوٹ مار کا بازار گرم کیا جائے۔ سونے، تیل، ڈرگز اور اسلحے کا بزنس کرنے والی کمپنیاں اپنے سرمائے میں بے دریغ اور مسلسل اضافہ کرنے کے لیے  دُنیا میں جو جو کچھ کرتی ہیں اُن میں سے ایک معمولی سا ٹُول دہشت گردی ہے۔ ایران عراق جنگ سے لیکر ، مصر، شام ، لیبیا بوسنیا، افغانستان اور پھر پاکستان کہیں اسلحہ فروخت ہوا تو کہیں انسان، کہیں سے ہیرے اور سونا لُوٹا گیا تو کہیں سے پوست کی فصل اٹھائی گئی۔ پہلے ملکوں کو کمزور کیا جاتا ہے پھر سرپرستی کا لالچ اور قرضوں کو لالی پاپ تھما دیا جاتا ہے۔ اور بیچارے اسے کبھی مذہب اور کبھی نظریے کی جنگ سمجھ کے اپنی اپنی جنت کی تلاش میں اس گھن چکر سے باہر ہی نہیں نکل پاتے۔ کتنا اچھا وقت تھا جب حقیقتاً نظریے کی جنگ تھی ۔ لیکن جب سے جماعت اسلامی کے دانشور تعلیم فروشی اور پراپرٹی ڈیلنگ میں پڑے اور کامریڈ سامراج کی بنائی ہوئی این جی اوز کے نوکر ہوئے نظرئیے کی جنگ ختم ہوئی اور دکانداری عروج پہ پہنچ گئی۔ آئی ایم کے وفد نے اپنی شرائط منوانے کے لیے آنا ہو تو کہیں ایک آدھ چھوٹی موٹی خبر لگتی ہے مگر انہی لمحات میں اتنا بڑا سانحہ رونما ہوجاتا ہے کہ کسی کا دھیان ہی اس طرف نہیں جاتا کہ ملک کے کونسے حصے میں ایک چُھرا اور گھونپ دیا گیا ہے۔ آپ خود دیکھیں پی آئی اے کی فروخت کا معاملہ باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے سانحے کے نیچے کتنا دور جا کے
دفن ہوا ہے۔ فرنود عالم نے باچا خان کی سامراج دُشنی کی توقیر کیا کی کہ سامرج کے ان ڈائریکٹ طفیلیوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگ گئے۔ اتنے ہی وطن پر اور جہاد خاں ہیں تو گوادر پورٹ اور اکنامک کاریڈور کے پس پردہ ہونے والی ڈکیتیوں کی طرف بھی رخ فرمائیں۔ یہ بھی دیکھیں کہ ہر روز بھوک سے ہونے والی خود کُشیوں کی تعداد کیا ہے۔ ورنہ مجھ سے پوچھیں کہ کون کون سے علمائے کرام اثاثے کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں۔ ہمیں سب پتہ ہے کہ یہ دہشت گردی نہ جہاد ہے اور نہ کوئی نظریاتی جنگ ۔ یہ صرف اور صرف ٹیرارِزم انڈسٹری ہے جس سے سینکڑوں انسانیت کے دُشمنوں کی دکانیں چل رہی ہیں۔ اور عام انسان اتنا بے بس ھوچکا ہے کہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میاں جو کچھ لوٹنا ہے لوٹ لو لیکن ہمارے بچے تو نہ مارو۔

فرحت عباس شاہ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔