Saturday 23 January 2016

dil hai betaab aor nazar be chain

0 comments
دل ہے بے تاب اور نظر بے چین
شام بے چین ہے شجر بے چین

بند آنکھوں میں ہے خدا بے تاب
آنکھ کھولوں تو ہے بشر بے چین

روح میں مستقل ہے ٹھہرا ہوا
رات کا آخری پہر بے چین

جانے کس چیز کی کمی ہے یہاں
جانے کیونکر ہے سب نگر بے چین

دیکھ کر ظالموں کے نیزوں کو
ہونے لگتا ہے میرا سر بے چین

دیکھ کر پنجروں کے دروازے
ہو گئے پنچھیوں کے پر بے چین

جانے اب کس طرح سکون ملے
ایک ہی گھر ہے اور گھر بے چین

فرحت عباس شاہ


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔