Sunday 24 January 2016

ae ishq hamain azaad karo

0 comments

اے عشق ہمیں آزاد کرو

کتنی ہی
زنجیریں 
دل میں
نوکیلے تپتے آہن سے بھی
کہیں زیادہ چبھتی ہیں
اور گھٹن کی بوجھ دیواریں تو
جیسے پشت اور سینے پر تعبیر ہوئی ہوں
عجب عجب سے پچھتاوے
اور بلا جواز پشیمانی سی
سانسوں اور آنکھوں میں اکثر
پسی ہوئی مرچوں کی سلگن دور دور تک بھر دیتی ہے
بے چینی کے حلقے روح کو
سختی سے جکڑے رکھتے ہیں
آنسو گلے کو
اندر سے پکڑے رکھتے ہیں
ہجر کی جیلیں
شہر کی جیلوں سے بڑھ چڑھ کر
عمر دبوچ لیا کرتی ہیں
جو کچھ کرنا ہو آخر میں
پہلے سوچ لیا کرتی ہیں

فرحت عباس شاہ
(اے عشق ہمیں آزاد کرو)


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔