Sunday, 7 February 2016

پاکستانی معاشرہے کی تشکیل کے اسباب اور جناب عطاءالحق قاسمی

2 comments
فیسبُک کالم

********

پاکستانی معاشرہے کی تشکیل کے اسباب اور جناب عطاءالحق قاسمی

اس میں کوئی شک نہیں کہ دُنیا میں آئے دن ایسے اقدامات ہوتے رہتے ہیں جن سے طرح طرح کے سوالات جنم لیتے ہیں لیکن وطن ِ عزیز میں کیے جانے والے اقدامات سے صرف جوابات جنم لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پہ حالیہ ترقیاتی اقدامات سے ایسے ا یسے پُل پیدا ہو رہے ہیں جو اپنا جواب نہیں رکھتے، یا پھر میٹرو ٹرین کے ٹریک کی وجہ سے بے روزگار یا بےگھرھونے والوں کے ہر طرح کے احتجاج کا یہی جواب ملتا ہے کہ ساڈے ولوں جواب جے۔ اور جب ایک ہی روڈ کو بار بار تہ وبالا کرکے بھر سے بنانے کی ٹھان لی جاتی ہے اور ٹریفک پھر بھی مینیج نہیں ہوتی تو ہر یُوٹرن پر پھنسے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کی بھائی جان اسیں جواب ہی سمجھیے۔ ایک بے روزگار شاعر کسی کھاتے پیتے رشتے دار گھر منہ اُٹھا کے بذاتِ خود اپنے لیے رشتہ مانگنے چلا گیا جس کے جواب میں موصوف کو مسلسل اتنے جُوتے پڑے کہ حضرت بے ہوش ہوگئے۔ جب پانی کے چھینٹے مارے جانے کے بعد ہوش میں آئے تو فورا" ہی بولے کہ انکل کیا کہتے ہیں آپ ، میں رشتے سے جواب سمجھوں؟
پاکستانی معاشرہ کیوں تشکیل دیا گیا؟ میرے خیال میں تو یہ سوال ہی غلط ہے کیوں کہ یہ تشکیل دیا نہیں گیا بلکہ تشکیل پا گیا ہے۔ جس طرح کوئی اچانک کھپ یا رولا پا جاتا ہے ، رنگ میں بھنگ پا جاتا ہے یا پھر دودھ میں پانی۔ اور جہاں تک میری دانشِ بے پایاں فہم و ادراک کے گھوڑے دوڑا سکتی ہے یہی نظر آتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس لیے تشکیل پایا کہ یہاں اُسترے، قینچیاں اور بلیڈ تشکیل پا سکیں۔ نہ صرف تشکیل پائیں بلکہ بڑے استرے جب چاہیں چھوٹے اُستروں کاناشتہ، لنچ یا ڈنر فرما لیں۔ 
یا یہاں کے شہروں ، دیہاتوں اور جنگلوں میں پائے جانے والے بندروں کے ہاتھوں میں ماچس تھمائی جا سکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ معاشرہ اس لیے تشکیل پا گیا ہو کہ یہاں یہاں کچھ نہ کچھ ضرور تشکیل پا جائے۔ کچھ نہ کچھ سے یاد آیا ، ھمارے ایک دوست جو کہ اپنی خوش قسمتی سے کامرس رپورٹر ہیں ، لاہور چیمبر آف کامرس کے ایک سابق صدر کے گھر پہنچ گئے ۔ خاطر توضع کے بعد جب اُن سے تشریف آوری کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمانے لگے کہ سردی بہت زیادہ پڑ رہی آپ کے ہاں کسی نہ کسی کو ضرور کچھ نہ کچھ ہوا ھوگا سوچا حال احوال ہی لے آوں ۔ 
بہت دیر تک غو ر و غص بلکہ غور و غصہ کرنے کے بعد اس بات کے بھی کافی امکانات دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ اس لیے تشکیل پایا ہو کہ یہاں ایک عدد تحریک ِ انصاف ظہور پذیر ہو ھمارے لاڈلے دوست اور رپورٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما عامر رضا کے ہاتھوں خوار ہو اور وہ اس کی دُھلائی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے۔ اگر آپ میری ان تمام دانشورانہ قیاس آرائیوں سے متفق نا ہوں تو پھر ایک آخری بات تو ایسی ہے کہ جس سے ہر متشکل و غیر متشکل کس و نا کس کو متفق ہونا ہی پڑے گا ۔ اور وہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس لیے تشکیل پایا کہ یہاں میاں ن لیگ پہلے وجود میں پھر اقتدار میں آئے اور پھر انتظار کرے کہ جیسے ہی ھمارے مایہ ناز ادیب اور مزاح نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کی ریٹائرمینٹ کو کافی مدت گُزر جائے یہ ان کو ہر دوسال بعد ایک نئی ملازمت سے نواز یں تاکہ ایک بار پھر ایک نیا پاکستانی معاشرہ تشکیل پا سکے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر کالم نگار اور ٹی وی اینکر کا ضمیر ، ضمیر شریف میں بدل جائے ۔ جس میں صوبے کے خادم اعلیٰ کوخدمتِ خود کے تمام وسائل اور ملک کے نادم اعلیٰ کے بلکہ نادم اعظم کو عظمت خود کے تمام فضائل بلا شرکتِ غیرے حاصل ہوں۔ اور جو کچھ اِ دھر اُدھر کہیں بچا کُھچا ہو وہ ٹرکل ڈاون ہو کے مالش اور پالش کا مرتبہ پا جائے۔ اپنے عطے بھائی سے کسی نے پُوچھا کہ تحریک انصاف والے آپ کو بہت زیادہ اور بہت گندی گالیاں دیتے ہیں آپ کو بُرا نہیں لگتا؟ تو جواب میں فرمایا کہ جس کی "دکان" چل رہی ہوتی ہے اسے کچھ بھی آتا بُرا نہیں لگتا۔ آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہیں نا۔ وہ آدمی بہت کچھ سمجھ گیا۔ ایک دفع ایک کالم نگارنے کسی اینکرسے پوچھا کہ تم یومیہ کتنا کما لیتے ہو ؟ اینکر نے جواب دیا، ، ، یہی کوئی دس سے پندرہ ھزار روپئے۔ ساتھ ہی پوچھنے لگا کہ تم بتاو؟۔ کالم نگارتھوڑا سا کھسیانا ہو کے بولا کہ یہی کوئی ہزار دو ہزار، ، کیونکہ میری دکان ذرا پیچھے ہے، باجی کیا کریں معاشرہ ہی ایسا ہے ۔ جس کی دکان ذرا ہٹ کے ہو اس کا تو مر کے خرچہ نکلتا ہے۔ اینکر پھر سوال داغ دیا کی عطے بھائی بھی تو کالم نگار ہیں وہ تو بہت کماتے ہیں؟ کالم نگار آنکھ مار کے بولا کہ ان کا کوئی ایک کام تھوڑا ہے بیچارے بہت محنت کرتے ہیں ۔ ان کی تو صرف زبان ہی تمہاری میری دکانوں سے زیادہ چلتی ہے۔ بھائی کیا کریں معاشرہ ہی ایسا ہو گیا ہے۔ اب یہاں چلتی کا نام گاڑی نہیں بلکہ میٹرو ہے۔

فرحت عباس شاہ

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔