کائناتی شعور کا شاعر
(تحریر: انیس ناگی)
فرحت عباس شاہ کا پانچواں شعری مجموعہ اس کے اندر موجزن جذباتی ہیجان کا سراغ دیتا ہے۔یکے بعد دیگرے اس کے شعری مجموعوں کی اشاعت اس کے تخلیقی وفور کی شہادت ہے۔ شاعری کے آغاز میں ہر شاعر اسی طرح کے وفور سے دو چار ہوتا ہے جو بتدریج تھم جاتا ہے اور جذباتی شدت اور محبت کے نغمے اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ فرحت عباس شاہ کی شاعری صرف جذبات پر ہی اعتماد نہیں کرتی‘ یہ جذباتی صورتحال سے پیدا شدہ رویے سے اپنی تشکیل کرتی ہے۔ اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ فرحت عباس شاہ کی شاعری میں فروغ پانے کی صلاحیت ہے۔
گزشتہ دس پندرہ سالوں سے نوجوان شعراء کی نسل میں کوئی ایسا شاعر دکھائی نہیں دیتا جس کی شاعری مروجہ موضوعات سے گریز کے ذریعے کسی نئی شعری کائنات کا پتہ دیتی ہو۔ اب تو نئی شاعری بھی روٹین کی شاعری بنتی جا رہی ہے۔ کیوں کہ نئے شعرا نے قناعت کر کے اجتہاد کا در بند کر دیا ہے۔ پیہم تجربات ادب میں زندگی کے تغیرات کو سمونے کے لیے لازم ہیں ۔ اردو شاعری کی کلاسیکی اصناف میں تجربے کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی ہیئتیں اپنی حفاظت کرتی ہیں‘ مثال کے طور پر غزل میں نام نہاد تجربات زیادہ سے زیادہ لسانی ہیر پھیر یا کبھی کبھار موضوعاتی تبدیلی سے عبارت ہیں‘ وگرنہ تشکیل معانی کا قرینہ غالب کی غزل کے بعد تبدیل نہیں ہوا۔
ان کلاسیکی اور مروجہ اصناف سخن کے برعکس آزاد نظم شاعری میں معنوی تشکیل کا بہتر امکان ہے۔ اس سے آگے نثری نظم شاعر کو تخلیقی آزادی کا بہتر موقع فراہم کرتی ہے‘ یہ کلاسیکل آہنگوں کی بالا دستی کو شکست کت کے زبان کے نئے معنوں اور لسانی آہنگ کا امکان پیدا کرتی ہے۔ نئے شعراء میں خوش آئند بات آزاد اور نثری نظم کا فروغ ہے۔ اس اعتبار سے نئے شعراء میں فرحت عباس شاہ کا متیاز ہے کہ اس نے کم سے کم غزل لکھی ہے اور اپے جذباتی اظہار کو ایک ایسے شعری پیکر میں منتقل کیا ہے جو معنی کو کشادگی کی طرف لے جاتا ہے۔ فرحت عباس شاہ کا زیر نظر شعری مجموعہ اس کے بھرپور شعری عمل کا ایک حصہ ہے‘ جو یکے بعد دیگرے اس کے شائع ہونے والے شعری مجموعوں میں ظاہر ہوا ہے۔
فرحت عباس شاہ کی نظموں کا نمایاں عنصر ان کی جذباتی شدت اور اس کا براہ راست اظہار ہے۔ اس کے یہاں جذباتی شدت جوانی کے محض رکے ہوئے جذبات کی بجائے ایک اجتماعی قید وبند کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوے والی اعصابی صورتحال ہے جو بتدریج اس کی احساساتی کیفیات کو تصور کی تشکیل کی طرف لے جاتی ہے۔ اس عمل میں فرحت شاہ کو ایک سہولت یہ بھی ہے کہ وہ فلسفہ اور نفسیات کا طالب علم رہا ہے۔ اچھی شاعری محض احساساتی اور جذباتی نہیں ‘ یہ ایک نقطہ نظر اور سوچ کو جنم دیتی ہے‘ اور یہ کیفیت فرحت عباس شاہ کی بیشتر نظموں میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کی نظموں کا معنوی پیرہن مختلف تانوں بانوں سے تیار ہوتا ہے۔ اسے ماضی سے کٹنے کا تہذیبی احساس بھی ہے۔ وہ فرد میں بصارت کی کمی کو بھی محسوس کرتا ہے۔ اسے موجودہ حالات کے نرغے میں آئی ذات کی محدودیت کا بھی شعور ہے‘ اسے بڑے شہروں کے صنعتی کلچر سے پیدا ہونے والے تظلم کا بھی احساس ہے۔ فرحت عباس شاہ اس پر آشوب اور شکست دینے والے حالات سے دستبردار ی کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے کسی قدر جارہیت کے ساتھ مروجہ مابعد الطبیعاتی نظام سے الجھتا ہوا اسے چیلنج کرتا ہے اور اس کی سب سے موثر مثال فرحت عباس شاہ کی طویل نظم ’’ خیال سو رہے ہو تم‘‘ ہے‘ جو معاصر انسان کے جذباتی فساد اور اس کی زیست میں معنویت کی شکست کا ایک نوحہ ہے۔
اس نظم میں فرحت عباس شاہ نے زبان کو آزادی سے استعمال کرتے ہوئے شعری لغت میں ہر طرح کے الفاظ اور تراکیب کے استعمال کی ترغیب دی ہے۔ جب کوئی شاعر نئی شعری لغت وضع کرتا ہے تو لا محالہ طور پر اسے اپنی جذباتی حالت میں اس طرح ضم کرتا ہے کہ وہ اپنی اجنبیت کو احساس کی تاثیر کے ذریعے ختم کر دیتا ہے۔
تین سالوں میں پانچ شعری مجموعوں کی اشاعت کا مطلب یہ نہیں کہ فرحت عباس شاہ نے اردو شعری روایت میں ناقابل شکست مقام پیدا کر لیا ہے‘ یہ اس کے شعری سفر کی ابتدا ہے بلکہ اسکا یہ شعری مجموعہ اس سفر کے آغاز کا اچھا شگون ہے۔
انیس ناگی
Farhat abbas shah sahib, jinab keya haal chal hein, Mazrat k saath aap ne mera shair chori keya he, ye aap ko zaib deta he, ye shair he, chor shah sahib,
isi se jaan geya mein k bakhat dhalny lagy.
mein thak kar chaoon mein baitha to pairh chalny lagy.
Mere paas har tarha ka proof he, agar farhat ne maafi na mangi to mein press conference karoon ga. is ne ye shair meri facebook dairy se chori keya he, keyon hein, na, Tiktok ki teri sari videos per duet keya kaha k sorry kar lo, magar ghadha ghadha hi hota he, chalo ab tamasha daikh lena
acha or kis kis k shair chori keye hein tu ne