صحرا خرید لائے ہیں
(تحریر: احمد ندیم قاسمی)
فرحت عباس شاہ کے دوسرے مجموعہ کلام ’’آنکھوں کے پار چاند‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے میں نے کہا تھا
میری دعا ہے فرحت اندھیرے سے روشنی کی طرف اور مردنی سے تمنا و آرزو کی طرف گہما گہمی کے ساتھ اپنا سفر کامیابی سے طے کرتا جائےکہ اس میں آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کی وافر اہلیت بھی ہے اور وہ تخلیقی وفور بھی ہے جس کے دم سے اس کے ہاں جذبے اور احساس کی نازک سے نازک پرتوں کا اظہار بھی نہایت سہولت اور پھر انتہا درجے کی بے ساختگی کے ساتھ ہوا ہے۔
فرحت عباس شاہ کا چوتھا مجموعہ دیکھنے کے بعد مجھے یہ اطمینان حاصل ہوا ہے کہ میری اس دعا نے قبولیت کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور فرحت کی شاعری میں وہ ستارے نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں جو اندھیرے کی مکمل نفی کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اس کا تیسرا مجموعہ کلام میری نظر سے نہیں گزرا البتہ اس چوتھے مجموعے کے ابتدائیہ نگار اظہر غوری صاحب کی تحریر سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ تیسرا مجموعہ فرحت کی غیر عروضی نظموں پر مشتمل ہے اور میں شاعری اور نثر کے درمیان ’’رِدم‘‘ کے امتیاز کو برقرار رکھنے کا حامی ہوں اور عروض کو ’’ ردم‘‘ کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ’’صحرا خرید لائے ہیں‘‘ کے آخری حصے میں بھی فرحت شاہ نے ’’ بے مہار‘‘ کے عنوان سے ’’غیر عروضی نظمیں‘‘ شامل کر رکھی ہیں‘ مگر میں اس موقعے پر اس کے سوا کچھ عرض نہیں کروں گا کہ جب فرحت شاہ غزل اور پابند نظم اور آزاد نظم اور کافی اور دوھا کہنے پر قادر ہے تو اسے اپنے نثر پاروں کو اپنے شعری مجموعے میں شامل کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی۔ چلئے اسے بھی فرحت شاہ کے اس تخلیقی وفور کا کیا دھرا قرار دے دینا چاہیے جس نے اس کے باطن میں تلاطم بپا کر رکھا ہے۔
نئی نسل کے احساسِ تنہائی‘ خوف ‘ تھکن‘ تلخی‘ کرب اور بے بسی کی عکاسی فرحت شاہ کے دوسرے مجموعوں کی طرح ’’ صحرا خرید لائے ہیں‘‘ میں بھی جگہ جگہ موجود ہےمگر اس دھند اور دھوئیں میں محبت کا وہ اجالا بھی موجود ہےجس نے کئی برس قبل فرحت سے یہ کہلوایا تھا کہ ’’ محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے‘‘ یقیناً اس نئے مجموعے میں بھی ’’ میں تھک کے چھائوں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے‘‘ کا کرب موجود ہے مگر محبت کا آفتاب یہاں بھی روشن ہے اور اس لحاظ سے زیادہ ہمہ جہتی سے روشن ہے کہ فرحت شاہ کی تلاش و جستجو کا رخ اب بظاہر تصوف کی طرف ہو رہا ہے اور یہ اس لحاظ سے خوشگوار ہے کہ ملائیت کی منفیت کے مقابلے میں تصوف اثبات کا نمائندہ ہوتا ہے اور یہ صوفی ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ کہہ سکے
خدائی صدقے کی انسان پر سے
اول تو اس مجموعے میں شامل کافیاں گواہ ہیں کہ آج کل فرحت شاہ کا سفر کس منطقے میں ہو رہا ہے۔ پھر خود اس نے اس مجموعے کے آغاز میں اعتراف کیا ہے کہ:
کوئی ہستی ہے جو میرا رخ کسی مخصوص سمت کی طرف‘ کسی مخصوص منزل کی طرف پھیر رہی ہے اور خاص طور پر جن دنوں میں اس کتاب کے تیسرے حصے (یعنی کافیوں والے حصے) کی زد میں تھا‘ مجھے لگ رہا تھا کہ اب تو بالکل ہی بے بس ہوں اور قلم کا کوئی بھی رخ میرے اختیار میں نہیں۔
یہ بے بسی بہت با معنی ہے۔ یہ اس ابدی حیرت والی بے بسی ہے جو تلاش حقیقت کے سفر کی ایک نہایت بلیغ منزل ہے۔ اس نکتے کی تائید مزید میں فرحت شاہ کی وہ غزل پڑھئے جس کی ردیف ہے۔۔ معنی دے
اپنے ادراک کا ابہام سمجھ
باطنِ حق سے صدا معنی دے
پردہ ہائے سرِ ہر تارِ نفس
ایک اک کر کے اٹھا‘ معنی دے
حرفِ حق بول سرِ شہرِ یزید
رہ نہ بے جرم و خطا‘ معنی دے
فرحت شاہ اس حقیقت شناسی کے باوجود کہ
تمہاری ہمسفری کے طویل عرصے میں
کہیں کہیں مجھے اپنا خیال رکھنا تھا
واضح الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ
جو جو دشمن میرے بس سے باہر تھا
میں نے اس کو اپنے اندر مار دیا
اس شعر اور اس نوع کے دوسرت اشعار کو فرحت عباس شاہ کے نئے سفر کے سنگ ہائے میل قرار دینا چاہیے۔ یہ وہی سفر ہے جس کا آغاز فرحت شاہ نے اس مجموعے کے کافیوں والے حصے کے ابتدائی شعر میں کیا ہے:
ہم اپنی طرز کے جوگی ہیں اس زمانے میں
خود اپنے دل میں پڑے ہیں بنا کے ویرانے
اور میں اپنے اس مختصر تاثر کا اختتام اپنے اس نہایت عزیز اور ذہین اور منفرد شاعر کی اس بھرپور کافی کے ایک اقتباس سے کرتا ہوں جس کا عنوان ہے
خوشیاں کرو تلاش۔۔۔اس کافی میں وہ کہتا ہے
نا پتھر نا کندن خوشیاں
نا کپڑے نا تن
نا باہر کی لیپا پوتی
نا اندر کا من
نا مسجد نا مندر خوشیاں
نا موسم نا منظر
نا شاہی نہ پیر فقیری
نا کوئی دشت سمندر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا اپنے نا پیارے خوشیاں
نا کمزور سہارے
نا قسمت نہ بخت مقدر
نا سورج نا تارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس اس یار کی چاہ مسرت
سچ اسی کی چاہ
سکھ بس ایک پناہ میں اس کی
خوشی اسی کی راہ
باقی سب کچھ لاش او لوگو
باقی سب کچھ لاش
خوشیاں کرو تلاش او لوگو
خوشیاں کرو تلاش
احمد ندیم قاسمی
کتاب: شاعر
مرتب: علی اکبر منصور
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔