Commercials
فرحت عباس شاہ کی کتابیں
- آ لگا جنگل در و دیوار سے
- آنکھوں کے پار چاند
- ابھی خواب ہے
- اداس شامیں اجاڑ رستے
- اکیسویں صدی کی پہلی نظم
- اے عشق ہمیں آزاد کرو
- بارشوں کے موسم میں
- تاجدارِ حرم
- تیرے کچھ خواب
- جدائی راستہ روکے کھڑی ہے
- چاند پر زور نہیں
- خیال سو رہے تم - طویل نظم
- دل دے ہتھ مہار
- روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل
- سوال درد کا ہے
- شام کے بعد - اول
- شام کے بعد - دوم
- عشق نرالا مذہب ہے
- کہاں ہو تم
- مت بول پیا کے لہجے میں
- مرا انتظار قدیم ہے
- محبت چپ نہیں رہتی
- محبت ذات ہوتی ہے
- محبت کی آخری ادھوری نظم۔۔۔رابعہ
- محبت گمشدہ میری
- ملو ہم سے
- من پنچھی بے چین
- موت زدہ
- وہ کہتی ہے
- ہجرعبادت بن جاتا ہے
- یاد آؤں اگر اُداسی میں
موضوعات
آمدو رفت
بلاگر حلقہ احباب
کچھ میرے بارے میں
Search This Blog
Categories
- azaad ghazal (3)
- daily city42 column (1)
- facebook column (2)
- geet (7)
- ghazal (41)
- nazm (20)
- punjabi ghazal (3)
- punjabi nazm (3)
- tabsira (4)
Farhat Abbas Shah
Unpublished Poetry
Featured post
saiyan zaat adhoori hai
سائیاں ذات ادھوری ہے سائیاں ذات ادھوری ہے سائیاں بات ادھوری ہے سائیاں رات ادھوری ہے سائیاں مات ادھوری ہے دشمن چوکنا ہے لیکن ...
Tuesday, 21 June 2016
Monday, 2 May 2016
to kiu na aj yeh karen k phool len, phalen kaheen
تو کیوں نہ آج یہ کریں کہ پھُول لیں ، پھلیں کہیں
سمجھ میں آگئی ہو میری بات تو چلیں کہیں
نظر نہ آئیں عشق کی طرح مہک رہیں مگر
تمام لوگ ڈھونڈتے پھریں یہ کونپلیں کہیں
تمہارے جیسے شاندار بے وفا ملے ہمیں
جو چاند کا چلن چُرائیں ،چاندنی ملیں کہیں
ہمارا دل کہ بانٹتا پھرے ہے خیر شہر میں
چراغ ہوں تو ایسے ہوں، جو ہوں کہیں، جلیں کہیں
یہ ایسا عہد ہے کہ جس میں بے حسی رواج ہے
کفِ ملال ہو اگر کہیں تو پھر ملیں کہیں
وہ روگ عمر بھر وبالِ جاں بنے رہے ، سُنو
جو روگ پیدا ہوں کہیں پہ اور پھر پلیں کہیں
کوئی بتاؤ اِسم جس سے دل کو حوصلہ رہے
یا ایسا ہو کہ سر سے یہ مصیبتیں ٹلیں کہیں
فرحت عباس شاہ
Sunday, 1 May 2016
muj main bharka hai jo be wajha alao to hataa
مجھ میں بھڑکا ہے جو بے وجہ الاؤ تو ہٹا
میرے مولامرے سینے سے دباؤ تو ہٹا
تُو بھلے آ میرے حلقے میں مگر قبل اس کے
مال و دولت کی طرف اپنا جھُکاؤ تو ہٹا
امن کی میز پہ بھی بیٹھ ہی جائیں گے مگر
اس سے پہلے یہ جلاؤ، یہ گھراؤ تو ہٹا
درد بھی ایسا ہے چالاک کہ کچھ مت پوچھو
اک ذرا نام ترا اس کو بتاؤ تو ہٹا
تُو تو پتھر میں عطا کرتا ہے روٹی روزی
اپنے دریاؤں کا اک سمت بہاؤ تو ہٹا
پھر مرے دل کے اُجڑنے پہ سزا دے مجھ کو
چاند کے ماتھے سے ویرانی کا گھاؤ تو ہٹا
ورنہ اس روز ترا درد مجھے لے جاتا
وہ تو میں زور سے بولاکہ بچاؤ تو ہٹا
فرحت عباس شاہ
Monday, 25 April 2016
suno logo
سُنو لوگو!
اکیلا میں نہیں زخمی
مرے جیسے ہزاروں ہیں
جو اپنے ان گنت قاتل دکھوں کو اپنی اپنی پیٹھ پر لادے
مسلسل ٹھوکریں قدموں میں باندھے اور نابینا شکستوں ، گُنگ چیخوں سے بھری کچھ فائیلیں دل سے لگائے،
بے تحاشا بے مرؤت کُرسیوں کی جھڑکیا ں سہتے ،
فقط خود ساختہ جھوٹے دلاسوں کے سہاروں سے لٹکتے پھررہے ہیں
اور اُن میں میَں بھی صبح سے شام تک چھینا گیا حق مانگنے کے جرم میں
جیسے پرائی موت مرتا ہوں
پرائی موت مرتا ہوں میں روزانہ
مرا مقتل یہی تھانے ، دفاتر، ایڈمنسٹریشن ، عدالت ،
میڈیا ہے اور شوکت خانموں جیسے،
درندوں سے بھرے بے رحم جنگل ہیں
جہاں وحشی ڈریکولے، اکاوئٹنٹ، افسر، ڈاکٹر، منصف یا ایس ایچ او یا ڈی جی،
سب مری آنکھوں مرے کپڑوں ، مرے چہرے سے میرے درد، بیماری ، ضرورت اور حیثیت کا اندازہ لگاتے ہیں ۔
اور اس کے بعد میری جیب میں کچھ بچ گئے سکوں کا آوازہ لگاتے ہیں ۔
بڑی مشکل سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں میری موت سے پہلے کے لمحوں کا
سُنو لوگو!
اکیلا میں نہیں زخمی ،
مرے جیسے ہزاروں ہیں
جنہیں اپنے کفن اُن سے بچانے ہیں
جو قبروں پر بھی قابض ہو کے پہلے تو کوئی مسجد بناتے ہیں
پھر اس کے بعد ڈی ایچ اے یا شاپنگ مال یا کوئی بہت مہنگا پلازہ یا محل تعمیر کرتے ہیں
انہیں پہچان لو ، ــــــ لوگو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
جو بے توقیر کر کر کے ہمیں تسخیر کرتے ہیں۔
فرحت عباس شاہ
Monday, 11 April 2016
yeh dil malool bhi kam hai udaas bhi kam hai
یہ دل ملول بھی کم ہے اداس بھی کم ہے
کئی دنوں سے کوئی آس پاس بھی کم ہے
کچھ ان دنوں ترا غم بھی برس نہیں پایا
کچھ ان دنوں مرے صحرا کی پیاس بھی کم ہے
ترے بغیر کسی باغ پر بہار نہیں
گلوں کا رنگ بھی پھیکا ہے باس بھی کم ہے
جو اب کی بار جدائی طویل ہے تو کیا
ہمیں تو ویسے ترا ساتھ راس بھی کم ہے
ہمیں بھی یونہی گذرنا پسند ہے اور پھر
تمھارا شہر مسافر شناس بھی کم ہے
فرحت عباس شاہ
(جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
Wednesday, 23 March 2016
phir tere hijr main bahay ansu
پھر تِرے ہجر میں بہے آنسو
ہائے میرے رہے سہے آنسو
آنکھ میں بھی کبھی نہیں آئے
دل سے جاتے کہاں رہے آنسو
آنکھ اپنی جگہ رہی دکھ میں
دل نے اپنی جگہ سہے آنسو
لاکھ روکوں مگر نہیں رکتے
ہو بہو آپ پر گئے آنسو
اُس نے جب مجھ کو کہہ دیا صحرا
پھر تو ایسے مِرے بہے آنسو
ہم تو چُپ ہو گئے مگر فرحت
دیر تک بولتے رہے آنسو
فرحت عباس شاہ
Wednesday, 10 February 2016
kayenaati shaoor ka shayer : tehreer-anees naagi
کائناتی شعور کا شاعر
(تحریر: انیس ناگی)
فرحت عباس شاہ کا پانچواں شعری مجموعہ اس کے اندر موجزن جذباتی ہیجان کا سراغ دیتا ہے۔یکے بعد دیگرے اس کے شعری مجموعوں کی اشاعت اس کے تخلیقی وفور کی شہادت ہے۔ شاعری کے آغاز میں ہر شاعر اسی طرح کے وفور سے دو چار ہوتا ہے جو بتدریج تھم جاتا ہے اور جذباتی شدت اور محبت کے نغمے اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ فرحت عباس شاہ کی شاعری صرف جذبات پر ہی اعتماد نہیں کرتی‘ یہ جذباتی صورتحال سے پیدا شدہ رویے سے اپنی تشکیل کرتی ہے۔ اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ فرحت عباس شاہ کی شاعری میں فروغ پانے کی صلاحیت ہے۔
گزشتہ دس پندرہ سالوں سے نوجوان شعراء کی نسل میں کوئی ایسا شاعر دکھائی نہیں دیتا جس کی شاعری مروجہ موضوعات سے گریز کے ذریعے کسی نئی شعری کائنات کا پتہ دیتی ہو۔ اب تو نئی شاعری بھی روٹین کی شاعری بنتی جا رہی ہے۔ کیوں کہ نئے شعرا نے قناعت کر کے اجتہاد کا در بند کر دیا ہے۔ پیہم تجربات ادب میں زندگی کے تغیرات کو سمونے کے لیے لازم ہیں ۔ اردو شاعری کی کلاسیکی اصناف میں تجربے کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی ہیئتیں اپنی حفاظت کرتی ہیں‘ مثال کے طور پر غزل میں نام نہاد تجربات زیادہ سے زیادہ لسانی ہیر پھیر یا کبھی کبھار موضوعاتی تبدیلی سے عبارت ہیں‘ وگرنہ تشکیل معانی کا قرینہ غالب کی غزل کے بعد تبدیل نہیں ہوا۔
ان کلاسیکی اور مروجہ اصناف سخن کے برعکس آزاد نظم شاعری میں معنوی تشکیل کا بہتر امکان ہے۔ اس سے آگے نثری نظم شاعر کو تخلیقی آزادی کا بہتر موقع فراہم کرتی ہے‘ یہ کلاسیکل آہنگوں کی بالا دستی کو شکست کت کے زبان کے نئے معنوں اور لسانی آہنگ کا امکان پیدا کرتی ہے۔ نئے شعراء میں خوش آئند بات آزاد اور نثری نظم کا فروغ ہے۔ اس اعتبار سے نئے شعراء میں فرحت عباس شاہ کا متیاز ہے کہ اس نے کم سے کم غزل لکھی ہے اور اپے جذباتی اظہار کو ایک ایسے شعری پیکر میں منتقل کیا ہے جو معنی کو کشادگی کی طرف لے جاتا ہے۔ فرحت عباس شاہ کا زیر نظر شعری مجموعہ اس کے بھرپور شعری عمل کا ایک حصہ ہے‘ جو یکے بعد دیگرے اس کے شائع ہونے والے شعری مجموعوں میں ظاہر ہوا ہے۔
فرحت عباس شاہ کی نظموں کا نمایاں عنصر ان کی جذباتی شدت اور اس کا براہ راست اظہار ہے۔ اس کے یہاں جذباتی شدت جوانی کے محض رکے ہوئے جذبات کی بجائے ایک اجتماعی قید وبند کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوے والی اعصابی صورتحال ہے جو بتدریج اس کی احساساتی کیفیات کو تصور کی تشکیل کی طرف لے جاتی ہے۔ اس عمل میں فرحت شاہ کو ایک سہولت یہ بھی ہے کہ وہ فلسفہ اور نفسیات کا طالب علم رہا ہے۔ اچھی شاعری محض احساساتی اور جذباتی نہیں ‘ یہ ایک نقطہ نظر اور سوچ کو جنم دیتی ہے‘ اور یہ کیفیت فرحت عباس شاہ کی بیشتر نظموں میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کی نظموں کا معنوی پیرہن مختلف تانوں بانوں سے تیار ہوتا ہے۔ اسے ماضی سے کٹنے کا تہذیبی احساس بھی ہے۔ وہ فرد میں بصارت کی کمی کو بھی محسوس کرتا ہے۔ اسے موجودہ حالات کے نرغے میں آئی ذات کی محدودیت کا بھی شعور ہے‘ اسے بڑے شہروں کے صنعتی کلچر سے پیدا ہونے والے تظلم کا بھی احساس ہے۔ فرحت عباس شاہ اس پر آشوب اور شکست دینے والے حالات سے دستبردار ی کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے کسی قدر جارہیت کے ساتھ مروجہ مابعد الطبیعاتی نظام سے الجھتا ہوا اسے چیلنج کرتا ہے اور اس کی سب سے موثر مثال فرحت عباس شاہ کی طویل نظم ’’ خیال سو رہے ہو تم‘‘ ہے‘ جو معاصر انسان کے جذباتی فساد اور اس کی زیست میں معنویت کی شکست کا ایک نوحہ ہے۔
اس نظم میں فرحت عباس شاہ نے زبان کو آزادی سے استعمال کرتے ہوئے شعری لغت میں ہر طرح کے الفاظ اور تراکیب کے استعمال کی ترغیب دی ہے۔ جب کوئی شاعر نئی شعری لغت وضع کرتا ہے تو لا محالہ طور پر اسے اپنی جذباتی حالت میں اس طرح ضم کرتا ہے کہ وہ اپنی اجنبیت کو احساس کی تاثیر کے ذریعے ختم کر دیتا ہے۔
تین سالوں میں پانچ شعری مجموعوں کی اشاعت کا مطلب یہ نہیں کہ فرحت عباس شاہ نے اردو شعری روایت میں ناقابل شکست مقام پیدا کر لیا ہے‘ یہ اس کے شعری سفر کی ابتدا ہے بلکہ اسکا یہ شعری مجموعہ اس سفر کے آغاز کا اچھا شگون ہے۔
انیس ناگی
jadeed tar nasal ka jadeed tareen shayer : tehreer-ahmed nadeem qasmi
جدید تر نسل کا جدید ترین شاعر
(تحریر : احمد ندیم قاسمی)
فرحت عباس شاہ جدید تر نسل کا جدید ترین شاعر ہے۔پرانی نسل کو جرات سے کام لے کر تسلیم کر لینا چاہیے کہ غلامی سے آزادی تک کا سفر مکمل کرنے کے بعد وہ خود آسودگی میں ڈوب گئی اور نئی نسل کی تہذیبی تربیت کی ضرورت نہیں سمجھی۔ یہی سبب ہے کہ جدید تر نسل خود کو ہاری ہوئی نسل قرار دیتی ہے اور فرحت عباس شاہ اسی نسل کا نمائندہ ہے۔ نئی نسل یہ سوچ کر شدید بے بسی محسوس کرتی ہےکہ ’’ ہم ایک طے شدہ تقدیر میں مقید ہیں‘‘ اور ایک ’’مہیب وحشت فکر‘‘ میں مبتلا ہیں۔ اس نسل کے دوسرے افراد کی طرح فرحت عباس شاہ سوچتا ہے کہ سب کچھ لا حاصل ہے۔۔۔۔ اور حاصل کا یہ دکھ ہمارے مزاج کا ایک ناگزیر حصہ ہے سو ہنسنا تک بھی خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ’’باہر کبھی ہنسے بھی تو گھر آ کے رو پڑے
فرحت عباس شاہ نے اپنے پہلے مجموعہ کلام میں نئی نسل کے احساسِ تنہائی‘ خوف‘ تھکن‘ بے بسی‘ تلخی اور کرب کی حساس نمائندگی کی تھی اور اب اپنے دوسرے مجموعے ’’آنکھوں کے پار چاند‘‘ میں بھی وہ اپنی نسل کو بیشتر مفلوج و شکستہ بازوئوں والی نسل قرار دیتا ہے۔ معاشرت و معیشت ‘ نیز عقیدوں اور نظریوں کے مروجہ جبر کے تناظر میں نئی نسل کا یوں سوچنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے مگر مجھے اس نہایت حساس اور ذہین نوجوان شاعر کے کلام میں آرزو کی پو اور امید کی شمع کی مسلسل تلاش رہی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہماری نوجوان نسل کی سوچوں میں دھند اور دھوئیں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ آخر مجھے وہ اجالا دستیاب ہو ہی گیا۔ محبت کے ذکر میں فرحت عباس شاہ کے ہاں رجائیت کی پو پھوٹتی نظر آئی اور امکان کی شعاع دھند کو چیرتی دکھائی دی۔ اس کے اپنے الفاظ ہیں کہ ’’ محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے‘‘ ۔۔۔۔ اور آج کا سارا جھگڑا ذات اور بطون ذات ہی کا تو ہے۔ یوں مجھے فرحت عباس شاہ کی لفظیات میں جہاں ’’ سانس کا نیلا بدن‘‘ اور ’’ بینائی کی زخمی انگلیاں‘‘ میں اور چاند کو دیکھ کر اسے ڈار سے بچھڑ کر مر جانے والا پرندہ یاد آیا‘ وہیں میں نے اس کی غزلوں کی ردیفوں تک میں اس کے باطنی دکھ کو مجسم پایا۔ ’’ہم ہار گئے‘‘ اور ’’ آسماں زرد ہے‘‘ اور ’’ زندگی تھک گئی‘‘ اور ’’ آنکھیں بھیگ گئیں‘‘ مگر پھر میں نے اس کی بعض نظموں کے علاوہ اس کی غزلوں کے کنارے بھی چمکتے دیکھے۔
فرحت عباس شاہ نے جہاں یہ نشتر قسم کے شعر کہے ہیں
دیتی ہے جب ذرا سی بھی آہٹ اذیتیں
ایسی خموشیوں میں سنائی دیا نہ کر
***************
یہ تو سچ ہے‘ چپ رہنے سے پاگل پن بڑھ جاتا ہے
لیکن پتھر کے اس شہر میں آخر کس سے بات کریں
***************
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بڑی دیر تک نڈھال رہے
***************
چاہے کوئی جیسا بھی ہم سفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
***************
کسی کے پاس بھی چہرہ نہیں مگر پھر بھی
ہر ایک شخص کے ہاتھوں میں آئنہ کیوں ہے
***************
میں کس کو پوچھنے نکلوں کسے تلاش کروں
قدم قدم پہ جدا ہو گیا کوئی نہ کوئی
***************
وہیں وہ اس انداز کے شعر بھی کہنے لگا جن کے حروف میں سے جستجو کا تسلسل اور خواہشوں کا جیتا جاگتا عمل جھانک رہا ہے
قافلے ریت ہوئے دشت جنوں میں کتنے
پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری ہے
***************
ہزاروں خواہشیں دل کے نہاں خانوں میں ہوتی ہیں
یہ بے آباد قصبے بھی کہاں ویران رہتے ہیں
***************
ہر ایک خار پہ ہنس ہنس کے پائوں دھرنا ہے
مسافتوں کے سمندر میں یوں اترنا ہے
***************
جسم تپتے پتھروں پر‘ روح صحرائوں میں تھی
پھر بھی تیری یاد ایسی تھی کہ جو چھائوں میں تھی
میری دعا ہے کہ فرحت اندھیرے سے روشنی کی طرف اور مردنی سے تمنا و آرزو کی طرف گہما گہمی کے ساتھ اپنا سفر کامیابی سے طے کرتا جائے کہ اس میں آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کی وافر اہلیت بھی ہے اور وہ تخلیقی وفور بھی ہے جس کے دم سے اس کے ہاں جذبے اور احساس کی نازک پرتوں کا اظہار بھی نہایت سہولت سے اور پھر انتہا درجے کی بے ساختگی کے ساتھ ہوا ہے۔
احمد ندیم قاسمی
Tuesday, 9 February 2016
Monday, 8 February 2016
sehraa khareed laye hain : tabsira by ahmed nadeem qasmi
صحرا خرید لائے ہیں
(تحریر: احمد ندیم قاسمی)
فرحت عباس شاہ کے دوسرے مجموعہ کلام ’’آنکھوں کے پار چاند‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے میں نے کہا تھا
میری دعا ہے فرحت اندھیرے سے روشنی کی طرف اور مردنی سے تمنا و آرزو کی طرف گہما گہمی کے ساتھ اپنا سفر کامیابی سے طے کرتا جائےکہ اس میں آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کی وافر اہلیت بھی ہے اور وہ تخلیقی وفور بھی ہے جس کے دم سے اس کے ہاں جذبے اور احساس کی نازک سے نازک پرتوں کا اظہار بھی نہایت سہولت اور پھر انتہا درجے کی بے ساختگی کے ساتھ ہوا ہے۔
فرحت عباس شاہ کا چوتھا مجموعہ دیکھنے کے بعد مجھے یہ اطمینان حاصل ہوا ہے کہ میری اس دعا نے قبولیت کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور فرحت کی شاعری میں وہ ستارے نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں جو اندھیرے کی مکمل نفی کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اس کا تیسرا مجموعہ کلام میری نظر سے نہیں گزرا البتہ اس چوتھے مجموعے کے ابتدائیہ نگار اظہر غوری صاحب کی تحریر سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ تیسرا مجموعہ فرحت کی غیر عروضی نظموں پر مشتمل ہے اور میں شاعری اور نثر کے درمیان ’’رِدم‘‘ کے امتیاز کو برقرار رکھنے کا حامی ہوں اور عروض کو ’’ ردم‘‘ کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ’’صحرا خرید لائے ہیں‘‘ کے آخری حصے میں بھی فرحت شاہ نے ’’ بے مہار‘‘ کے عنوان سے ’’غیر عروضی نظمیں‘‘ شامل کر رکھی ہیں‘ مگر میں اس موقعے پر اس کے سوا کچھ عرض نہیں کروں گا کہ جب فرحت شاہ غزل اور پابند نظم اور آزاد نظم اور کافی اور دوھا کہنے پر قادر ہے تو اسے اپنے نثر پاروں کو اپنے شعری مجموعے میں شامل کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی۔ چلئے اسے بھی فرحت شاہ کے اس تخلیقی وفور کا کیا دھرا قرار دے دینا چاہیے جس نے اس کے باطن میں تلاطم بپا کر رکھا ہے۔
نئی نسل کے احساسِ تنہائی‘ خوف ‘ تھکن‘ تلخی‘ کرب اور بے بسی کی عکاسی فرحت شاہ کے دوسرے مجموعوں کی طرح ’’ صحرا خرید لائے ہیں‘‘ میں بھی جگہ جگہ موجود ہےمگر اس دھند اور دھوئیں میں محبت کا وہ اجالا بھی موجود ہےجس نے کئی برس قبل فرحت سے یہ کہلوایا تھا کہ ’’ محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے‘‘ یقیناً اس نئے مجموعے میں بھی ’’ میں تھک کے چھائوں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے‘‘ کا کرب موجود ہے مگر محبت کا آفتاب یہاں بھی روشن ہے اور اس لحاظ سے زیادہ ہمہ جہتی سے روشن ہے کہ فرحت شاہ کی تلاش و جستجو کا رخ اب بظاہر تصوف کی طرف ہو رہا ہے اور یہ اس لحاظ سے خوشگوار ہے کہ ملائیت کی منفیت کے مقابلے میں تصوف اثبات کا نمائندہ ہوتا ہے اور یہ صوفی ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ کہہ سکے
خدائی صدقے کی انسان پر سے
اول تو اس مجموعے میں شامل کافیاں گواہ ہیں کہ آج کل فرحت شاہ کا سفر کس منطقے میں ہو رہا ہے۔ پھر خود اس نے اس مجموعے کے آغاز میں اعتراف کیا ہے کہ:
کوئی ہستی ہے جو میرا رخ کسی مخصوص سمت کی طرف‘ کسی مخصوص منزل کی طرف پھیر رہی ہے اور خاص طور پر جن دنوں میں اس کتاب کے تیسرے حصے (یعنی کافیوں والے حصے) کی زد میں تھا‘ مجھے لگ رہا تھا کہ اب تو بالکل ہی بے بس ہوں اور قلم کا کوئی بھی رخ میرے اختیار میں نہیں۔
یہ بے بسی بہت با معنی ہے۔ یہ اس ابدی حیرت والی بے بسی ہے جو تلاش حقیقت کے سفر کی ایک نہایت بلیغ منزل ہے۔ اس نکتے کی تائید مزید میں فرحت شاہ کی وہ غزل پڑھئے جس کی ردیف ہے۔۔ معنی دے
اپنے ادراک کا ابہام سمجھ
باطنِ حق سے صدا معنی دے
پردہ ہائے سرِ ہر تارِ نفس
ایک اک کر کے اٹھا‘ معنی دے
حرفِ حق بول سرِ شہرِ یزید
رہ نہ بے جرم و خطا‘ معنی دے
فرحت شاہ اس حقیقت شناسی کے باوجود کہ
تمہاری ہمسفری کے طویل عرصے میں
کہیں کہیں مجھے اپنا خیال رکھنا تھا
واضح الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ
جو جو دشمن میرے بس سے باہر تھا
میں نے اس کو اپنے اندر مار دیا
اس شعر اور اس نوع کے دوسرت اشعار کو فرحت عباس شاہ کے نئے سفر کے سنگ ہائے میل قرار دینا چاہیے۔ یہ وہی سفر ہے جس کا آغاز فرحت شاہ نے اس مجموعے کے کافیوں والے حصے کے ابتدائی شعر میں کیا ہے:
ہم اپنی طرز کے جوگی ہیں اس زمانے میں
خود اپنے دل میں پڑے ہیں بنا کے ویرانے
اور میں اپنے اس مختصر تاثر کا اختتام اپنے اس نہایت عزیز اور ذہین اور منفرد شاعر کی اس بھرپور کافی کے ایک اقتباس سے کرتا ہوں جس کا عنوان ہے
خوشیاں کرو تلاش۔۔۔اس کافی میں وہ کہتا ہے
نا پتھر نا کندن خوشیاں
نا کپڑے نا تن
نا باہر کی لیپا پوتی
نا اندر کا من
نا مسجد نا مندر خوشیاں
نا موسم نا منظر
نا شاہی نہ پیر فقیری
نا کوئی دشت سمندر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا اپنے نا پیارے خوشیاں
نا کمزور سہارے
نا قسمت نہ بخت مقدر
نا سورج نا تارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس اس یار کی چاہ مسرت
سچ اسی کی چاہ
سکھ بس ایک پناہ میں اس کی
خوشی اسی کی راہ
باقی سب کچھ لاش او لوگو
باقی سب کچھ لاش
خوشیاں کرو تلاش او لوگو
خوشیاں کرو تلاش
احمد ندیم قاسمی
کتاب: شاعر
مرتب: علی اکبر منصور
farhat abbas shah "aik naye ehed ka aaghaaz" : Munir niazi
فرحت عباس شاہ ‘‘ ایک نئے عہد کا آغاز’’
ہر عہد میں ایک شاعر ایسا ہوتا ہے جو گزرے ہوئے بڑے شعراء کے ورثے کا امین ہوتا ہے قدیم روحِ شعر اپنا وارث تلاش کرتی ہے اور جس عہد میں جو راست فکر شاعر اسے مل جاتا ہے اس سے وہ اس طرح ملتی ہے جیسے کوئی دیر سے بچھڑے ہوئے محبوب سے ملتا ہے۔ ان دونوں کے وصال سے جو شاعری پیدا ہوتی ہے وہی اس عہد اس دور کی شاعری ہوتی ہے اور بڑی شاعری ہوتی ہے فرحت عباس شاہ کی شاعری اس قدرتی اور فطری عمل کا ثمر ہے اسی لیے اثر انگیز ہے اور عوام میں خوشبو کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔
فرحت عباس شاہ اس عہد کا ایسا شاعر ہے جدید شاعروں میں جس کا کوئی ثانی نہیں اس کا جتنا کلام میں نے پڑھا اور سنا ہے وہ سب سے جداگانہ اور اثر انگیزی میں بہت زیادہ ہے۔’’خیال سو رہے ہو تم‘‘، ’’صحرا خرید لائے ہیں‘‘، ’’اداسی ٹھہر جاتی ہے‘‘ اس کی کتابوں کے صرف نام ہی ایسے ہیں کہ میں کئی کئی دن ان کے اندر رہتا ہوں‘ فرحت عباس شاہ اپنے شعروں اور نظموں میں الگ شہر بساتا ہے۔ الگ جہان آباد کرتا ہے۔ وہ نہ صرف گزرے ہوئے بڑے شعراء کے ورثے کا امین ہے بلکہ ایک نئے عہد کا آغاز بھی ہے۔
منیر نیازی
کتاب: شاعر
مرتب: علی اکبر منصور
Sunday, 7 February 2016
پاکستانی معاشرہے کی تشکیل کے اسباب اور جناب عطاءالحق قاسمی
فیسبُک کالم
********
پاکستانی معاشرہے کی تشکیل کے اسباب اور جناب عطاءالحق قاسمی
اس میں کوئی شک نہیں کہ دُنیا میں آئے دن ایسے اقدامات ہوتے رہتے ہیں جن سے طرح طرح کے سوالات جنم لیتے ہیں لیکن وطن ِ عزیز میں کیے جانے والے اقدامات سے صرف جوابات جنم لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پہ حالیہ ترقیاتی اقدامات سے ایسے ا یسے پُل پیدا ہو رہے ہیں جو اپنا جواب نہیں رکھتے، یا پھر میٹرو ٹرین کے ٹریک کی وجہ سے بے روزگار یا بےگھرھونے والوں کے ہر طرح کے احتجاج کا یہی جواب ملتا ہے کہ ساڈے ولوں جواب جے۔ اور جب ایک ہی روڈ کو بار بار تہ وبالا کرکے بھر سے بنانے کی ٹھان لی جاتی ہے اور ٹریفک پھر بھی مینیج نہیں ہوتی تو ہر یُوٹرن پر پھنسے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کی بھائی جان اسیں جواب ہی سمجھیے۔ ایک بے روزگار شاعر کسی کھاتے پیتے رشتے دار گھر منہ اُٹھا کے بذاتِ خود اپنے لیے رشتہ مانگنے چلا گیا جس کے جواب میں موصوف کو مسلسل اتنے جُوتے پڑے کہ حضرت بے ہوش ہوگئے۔ جب پانی کے چھینٹے مارے جانے کے بعد ہوش میں آئے تو فورا" ہی بولے کہ انکل کیا کہتے ہیں آپ ، میں رشتے سے جواب سمجھوں؟
پاکستانی معاشرہ کیوں تشکیل دیا گیا؟ میرے خیال میں تو یہ سوال ہی غلط ہے کیوں کہ یہ تشکیل دیا نہیں گیا بلکہ تشکیل پا گیا ہے۔ جس طرح کوئی اچانک کھپ یا رولا پا جاتا ہے ، رنگ میں بھنگ پا جاتا ہے یا پھر دودھ میں پانی۔ اور جہاں تک میری دانشِ بے پایاں فہم و ادراک کے گھوڑے دوڑا سکتی ہے یہی نظر آتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس لیے تشکیل پایا کہ یہاں اُسترے، قینچیاں اور بلیڈ تشکیل پا سکیں۔ نہ صرف تشکیل پائیں بلکہ بڑے استرے جب چاہیں چھوٹے اُستروں کاناشتہ، لنچ یا ڈنر فرما لیں۔
یا یہاں کے شہروں ، دیہاتوں اور جنگلوں میں پائے جانے والے بندروں کے ہاتھوں میں ماچس تھمائی جا سکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ معاشرہ اس لیے تشکیل پا گیا ہو کہ یہاں یہاں کچھ نہ کچھ ضرور تشکیل پا جائے۔ کچھ نہ کچھ سے یاد آیا ، ھمارے ایک دوست جو کہ اپنی خوش قسمتی سے کامرس رپورٹر ہیں ، لاہور چیمبر آف کامرس کے ایک سابق صدر کے گھر پہنچ گئے ۔ خاطر توضع کے بعد جب اُن سے تشریف آوری کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمانے لگے کہ سردی بہت زیادہ پڑ رہی آپ کے ہاں کسی نہ کسی کو ضرور کچھ نہ کچھ ہوا ھوگا سوچا حال احوال ہی لے آوں ۔
بہت دیر تک غو ر و غص بلکہ غور و غصہ کرنے کے بعد اس بات کے بھی کافی امکانات دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ اس لیے تشکیل پایا ہو کہ یہاں ایک عدد تحریک ِ انصاف ظہور پذیر ہو ھمارے لاڈلے دوست اور رپورٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما عامر رضا کے ہاتھوں خوار ہو اور وہ اس کی دُھلائی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے۔ اگر آپ میری ان تمام دانشورانہ قیاس آرائیوں سے متفق نا ہوں تو پھر ایک آخری بات تو ایسی ہے کہ جس سے ہر متشکل و غیر متشکل کس و نا کس کو متفق ہونا ہی پڑے گا ۔ اور وہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس لیے تشکیل پایا کہ یہاں میاں ن لیگ پہلے وجود میں پھر اقتدار میں آئے اور پھر انتظار کرے کہ جیسے ہی ھمارے مایہ ناز ادیب اور مزاح نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کی ریٹائرمینٹ کو کافی مدت گُزر جائے یہ ان کو ہر دوسال بعد ایک نئی ملازمت سے نواز یں تاکہ ایک بار پھر ایک نیا پاکستانی معاشرہ تشکیل پا سکے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر کالم نگار اور ٹی وی اینکر کا ضمیر ، ضمیر شریف میں بدل جائے ۔ جس میں صوبے کے خادم اعلیٰ کوخدمتِ خود کے تمام وسائل اور ملک کے نادم اعلیٰ کے بلکہ نادم اعظم کو عظمت خود کے تمام فضائل بلا شرکتِ غیرے حاصل ہوں۔ اور جو کچھ اِ دھر اُدھر کہیں بچا کُھچا ہو وہ ٹرکل ڈاون ہو کے مالش اور پالش کا مرتبہ پا جائے۔ اپنے عطے بھائی سے کسی نے پُوچھا کہ تحریک انصاف والے آپ کو بہت زیادہ اور بہت گندی گالیاں دیتے ہیں آپ کو بُرا نہیں لگتا؟ تو جواب میں فرمایا کہ جس کی "دکان" چل رہی ہوتی ہے اسے کچھ بھی آتا بُرا نہیں لگتا۔ آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہیں نا۔ وہ آدمی بہت کچھ سمجھ گیا۔ ایک دفع ایک کالم نگارنے کسی اینکرسے پوچھا کہ تم یومیہ کتنا کما لیتے ہو ؟ اینکر نے جواب دیا، ، ، یہی کوئی دس سے پندرہ ھزار روپئے۔ ساتھ ہی پوچھنے لگا کہ تم بتاو؟۔ کالم نگارتھوڑا سا کھسیانا ہو کے بولا کہ یہی کوئی ہزار دو ہزار، ، کیونکہ میری دکان ذرا پیچھے ہے، باجی کیا کریں معاشرہ ہی ایسا ہے ۔ جس کی دکان ذرا ہٹ کے ہو اس کا تو مر کے خرچہ نکلتا ہے۔ اینکر پھر سوال داغ دیا کی عطے بھائی بھی تو کالم نگار ہیں وہ تو بہت کماتے ہیں؟ کالم نگار آنکھ مار کے بولا کہ ان کا کوئی ایک کام تھوڑا ہے بیچارے بہت محنت کرتے ہیں ۔ ان کی تو صرف زبان ہی تمہاری میری دکانوں سے زیادہ چلتی ہے۔ بھائی کیا کریں معاشرہ ہی ایسا ہو گیا ہے۔ اب یہاں چلتی کا نام گاڑی نہیں بلکہ میٹرو ہے۔
فرحت عباس شاہ
Saturday, 30 January 2016
kook mere dil kook
کُوک مرے دل کُوک
ہر سینے کونے چار
ہر کونے درد ہزار
ہر درد کا اپنا وار
ہر وار کی اپنی مار
ترے گردو پیش ہجوم
کئی سورج، چاند، نجوم
ہر جانب چیخ پکار
تری کوئی سنے نہ ہوک
کبھی کُوک مرے دل کُوک
ہر سینے آنکھیں سو
ہر آنکھ کی اپنی لو
پر پوری پڑے نہ ضو
کبھی پھوٹ سکی نہ پو
ترے صحن اندھیرا گھپ
تری اللہ والی چپ
ترے مٹی ہوگئے جو
تری کون مٹائے بھوک
کبھی کُوک مرے دل کُوک
ہر سینے سو سو جنگ
تری سانس کے رستے تنگ
ترا نیلا پڑ گیا رنگ
ترے نت نرالے ڈھنگ
لمحوں کے خنجر تیز
ہر دھار اذیت خیز
ترا نازک اک اک انگ
ترا اک اک تار ملوک
کبھی کُوک مرے دل کُوک
کبھی کُوک مرے دل کُوک
فرحت عباس شاہ
mera shaam saloona shah piya
مرا شام سلونا شاہ پیا
کبھی جڑوں میں زہر اتار لیا
کبھی لبوں کے پیچھے مار لیا
اس ڈر سے کہ درد کی شدت میں
کہیں نکل نہ جائے آہ پیا
مرا شام سلونا شاہ پیا
ہمیں جنگل جنگل بھٹکا دو
ہمیں سولی سولی لٹکا دو
جو جی سے چاہو یار کرو
ہم پڑ جو گئے تری راہ پیا
مرا شام سلونا شاہ پیا
کہیں روح میں پیاس پکارے گی
کہیں آنکھ میں آس پکارے گی
کہیں خون کہیں دل بولے گا
کبھی آنا مقتل گاہ پیا
مرا شام سلونا شاہ پیا
تری شکل بصارت آنکھوں کی
ترا لمس ریاضت آنکھوں کی
ترا نام لبوں کی عادت ہے
مری اک اک سانس گواہ پیا
مرا شام سلونا شاہ پیا
ہمیں مار گئی تری چاہ پیا
فرحت عباس شاہ
saiyan zaat adhoori hai
سائیاں ذات ادھوری ہے
سائیاں ذات ادھوری ہے
سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے
سائیاں مات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن
سائیاں گھات ادھوری ہے
سائیاں تیرے گاؤں میں
دکھ کی سیاہ فضاؤں میں
نا مانوس ہواؤں میں
لوگوں اور بلاؤں میں
قید ہوئے ہیں مدت سے
ہم نے کار دعاؤں میں
سائیاں رنج ملال بہت
دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت
پیار محبت کال بہت
اور اسی عالم میں سائیاں
گزر گئے ہیں سال بہت
سائیاں ہر سو درد بہت
موسم موسم سرد بہت
رستہ رستہ گرد بہت
چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر
تیرا اک اک فرد بہت
سائیاں تیرے شہر بہت
گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت
اس پر تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں
ہم کو ایک ہی پہر بہت
سائیاں دل مجبور بہت
روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بے نور بہت
اور لمحے مغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں
تو بھی ہم سے دور بہت
سائیاں راہیں تنگ بہت
دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت
خلقت ساری دنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہیں
بہلانے کے ڈھنگ بہت
سائیاں میرے تارے گم
رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم
آنکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گئے
راکھ میں ہوئے شرارے گم
سائیاں میری راتیں گم
ساون اور برساتیں گم
لب گم گشتہ باتیں گم
بینائی گم جھاتیں گم
جیون کے اس صحرا میں
سب جیتیں سب ماتیں گم
سائیاں جان بیمار ہوئی
صدموں سے دو چار ہوئی
ہر شے سے بیزار ہوئی
ہر اک سپنا سنگ ہوا
ہر خواہش دیوار ہوئی
سائیاں رشتے ٹوٹ گئے
سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے
تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھےجو
لٹے ہوئوں کو لوٹ گئے
سائیاں خواب اداس ہوئے
سرخ گلاب اداس ہوئے
دل بے تاب اداس ہوئے
دور سحاب اداس ہوئے
جب سے صحرا چھوڑ دیا
ریت سراب اداس ہوئے
سائیاں تنہا شاموں میں
چنے گئے ہیں باموں میں
چاہت کے الزاموں میں
شامل ہوئے ہے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں
اپنا نام نہ ناموں میں
سائیاں ویرانی کے صدقے
اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے
لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں
اپنی رحمانی کے صدقے
سائیاں میرے درد گھٹا
سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا
سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں
سائیاں اپنا آپ دکھا
سائیاں میرے اچھے سائیاں
سائیاں میرے دولے سائیاں
سائیاں میرے پیارے سائیاں
سائیاں میرے بیبے سائیاں
فرحت عبّاس شاہ
Friday, 29 January 2016
Army chief ka bawaqar fesla : daily city 42 column : farhat abbas shah
آرمی چیف کا باوقار فیصلہ
(ڈیلی سٹی 42 کالم : فرحت عباس شاہ)
****************
دُنیا کے بہت سارے دانشوروں کو یہ سُن کر مایوسی ہوئی کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مدت ِ مُلازمت میں توسیع سے انکار کردیا ہے۔ کتنی بد نصیبی کی بات ہے ہم ایسے دور میں سانس لے رہے جب ہرطرف حصول ِ توسیع جائداد سے لیکر حصولِ توسیع اختیار و اقتدار کے لیے مارے مارے پھرنے والے لوگ کہیں سے انکار سُنتے ہیں تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا۔ حالانکہ پوری دُنیا میں اصول و قوائد بنائے ہی اسی لیے جاتے ہیں کہ ہر انسان اپنی ناک کی حد تک آزادی کا لطف اُٹھائے اور جہاں سے کسی دوسرے کی حد شروع ہو وہاں بریک لگا دے ۔ جنرل راحیل شریف نے جس وقار کے ساتھ اپنے عہدے کی باگ ڈور سنبھالی اور جس طرح ایک خالص سپاہی کی طرح اپنے پیشہ ورانہ فرائض سنبھالے اسی معتبر طریقے سے اپنے ٹائم پر ریٹائرمینٹ کا اعلان کیا ہے۔ اس سے نہ صرف اُن کی ذاتی عزت میں اضافہ ہوا ھے بلکہ پاک افواج کے ادارے کی ساکھ میں چار چاند لگے ہیں۔
بریگیدئر حامد سعید نے اپنی کتاب ، " سیاست، ریاست اور قیادت " میں پاکستان کے اندر لگنے والے مارشل لاز کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک کے بیشتر سیاستدان اور اُن کے چہیتے دانشور جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو واویلا مچاتے ہیں کہ اگر آرمی نے اقتدار نہ سنبھالا تو ملک کو انتہائی خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ اور جب آرمی ملک کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تو شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ آرمی کا کام تو سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔
بنیادی بات یہی ہے کہ ملک میں سیاسی صورتحال بگاڑنے میں کسی نہ کسی زاویہ سے سیاستدان ہی سرگرم عمل پائے گئے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں شیخ رشید صاحب فرما رہے تھے کہ اگرچہ آرمی چیف کا ایکسٹینشن نہ لینے کا فیصلہ اُن کی ذات اور ادارے کے لیے بہت بہتر ہے لیکن ابھی ملک کو اُن ضرورت ہے۔ میرے خیال میں ھمارے ملک کو اس وقت سب سے زیادہ قوائد و ضوابط کی پابندی کرنے کی مثالیں سیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ایسے بے ربط ، بے قائدہ اور بے اصول معاشرے میں بدلتے جا رہے ہیں جس کی کوئی کل سیدھی ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہم اپنے فرائض اور ذاتی دلچسپی میں فرق کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں۔ قومی مفاد بھی ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھتا نظر آتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر ملک کا اتنا اہم عہدیدار اصولی فیصلہ کرتا ہے اور ذاتی دلچسپی یا کچھ احباب کی ذاتی رائے پر ادارے کے قوائد اور عزت کو ترجیح دے رہا ہے تو یہ نہایت خوش آئیند ہے بلکہ ھماری اپنے ملک کے بارے میں خوش امیدی کو تقویت دینے والا ہے
آخر میں تین شعر آپ کی نذر
لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے
راستوں پر گھاس اُگ آئی اگر
کون لوٹے گا سمندر پا ر سے
کاٹتا ہے دُشمنِ چالاک اب
گردنوں کو گردنوں کی دھار سے
Thursday, 28 January 2016
aye hain chalo kuch to mere kaam kinaray
آئے ہیں چلو کچھ تو مرے کام کنارے
میں آج سے کرتا ہوں ترے نام کنارے
بڑھنے نہیں دیتے اسے اک گام کنارے
دریا کے لیے ہوتے ہیں الزام کنارے
دریا سے لگا بیٹھے ہیں دل جب سے دوانے
تب سے انہیں لگتے ہیں در و بام کنارے
اشکوں میں ستاروں کی چمک دیتی ہے پہرا
آنکھوں میں اتر آتے ہیں جب شام کنارے
لہروں کو اگر حَد میں نہ رکھیں گے تو فرحت
کر دوں گا میں آئندہ سے نیلام کنارے
فرحت عباس شاہ
tera wajood to mera gumaan doob gya
ترا وجود تو میراگمان ڈوب گیا
افق میں دور کہیں آسمان ڈوب گیا
بھری ہیں جس طرح آنکھیں ہماری اشکوں سے
ہمیں تو لگتا ہے سارا جہان ڈوب گیا
ہوا سے رابطہ کرنے کی دیر تھی اور پھر
سمندروں میں مرا بادبان ڈوب گیا
ترا خیال ابھرتا نہیں لبوں سے مرے
مری پناہ میں مرا سائبان ڈوب گیا
یہیں کہیں کوئی رویا ہے بیٹھ کر فرحتؔ
یہیں کہیں پہ تمہارا نشان ڈوب گیا
فرحت عباس شاہ
joonhi basti main kaheen se bhi muje dar aya
جونہی بستی میں کہیں سے بھی مجھے ڈر آیا
رات بھر خوف کی چوکھٹ پہ بسر کر آیا
ایک احساس کہ لوٹ آیا ہوں غم خانے میں
اور پھر اس پہ یہ لگتا ہے کہ میں گھر آیا
جس قدر ہجر سے بچتا ہوں میں جینے کے لیے
یہ ہمیشہ اسی شدت سے مجھے در آیا
میں کئی بار محبت میں تری جی اٹھا
میں کئی بار جدائی میں تری مَر آیا
میری قربانی بھی دیکھو کہ دکھوں کے بدلے
اپنی خوشیاں تری دہلیز پہ ہوں، دھر آیا
جانے کیونکر مجھے مصلوب کیا جاتا ہے
جانے کیوں نیزے پہ ہر بار مرا سر آیا
فرحت عباس شاہ
azal abad badnaam suhaagan
اَزل اَبد بدنام سہاگن
تنہائی کی شام سہاگن
جیت سکی نہ دل ساجن کا
ہوں کتنی ناکام سہاگن
میں داسی ہوں اپنے پیا کی
نیچ، کنیز، غلام سہاگن
سیج پہ گُل کی بن ساجن کے
کب آیا آرام سہاگن
پریتم ہی ہے سب کچھ تیرا
رب، رحمان اور رام سہاگن
تم نے کیوں دنیا سے چھپ کر
دل سے کیا کلام سہاگن
سدا رہے سیندور سلامت
سکھ پاؤ ہر گام سہاگن
فرحت عباس شاہ
jagna raat bhar udasi main
جاگنا رات بھر اداسی میں
اور کرنا سفر اداسی میں
شام ہوتے ہی جانے کیوں میرا
ڈوب جاتا ہے گھر اداسی میں
چھوڑو ایسی بھی کوئی بات نہیں
کوئی جاتا ہے مر اداسی میں
روزکے روز پینے والوں پر
مختلف تھا اثر اداسی میں
جانے کیا بات دل میں ہوتی ہے
کھلا رہتا ہے در اداسی میں
پھر تمہیں فون کی اجازت ہے
یاد آؤں اگر اداسی میں
اس نے بھی جان بوجھ کر اپنی
مجھ کو دی ہے خبر اداسی میں
میں تو رہتا ہوں بے نیاز بہت
اس کو لگتا ہے ڈر اداسی میں
لگنے لگتے ہیں مجھ کو تم جیسے
سارے شمس و قمر اداسی میں
فرحت عباس شاہ